عام شہریوں کے قتل کا کوئی جواز نہیں ہے

2023/10/30 17:06:01
شیئر:

27 اکتوبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے   خصوصی ہنگامی اجلاس میں فلسطین اور اسرائیل سے متعلق قرارداد کا مسودہ منظور کیا گیا جس کے حق میں 120 اور  مخالفت میں 14 ووٹ  آئے جب کہ 45   رکن ممالک  نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا ۔ امریکہ اور اسرائیل  نے اس  قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔ اقوام متحدہ میں فرانس کے مستقل نمائندے نکولس ڈی ریویئر نے کہا کہ فرانس نے  اس قرارداد کے حق میں ووٹ دیا کیونکہ "شہریوں کے قتل کا کوئی بھی جواز نہیں ہے۔"

مسودے میں  پائیدار  جنگ بندی کے فوری نفاذ، غزہ کی پٹی میں شہریوں کو بنیادی اشیا اور سہولیات کی فوری فراہمی، شہریوں اور بین الاقوامی اداروں کے تحفظ اور  شمالی غزہ سے انخلاء کے اسرائیل کے حکم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔مسودے میں فلسطینی اور اسرائیلی شہریوں کے خلاف ہر قسم کے تشدد کی مذمت کی گئی اور "دو ریاستی فارمولے" کی بنیاد پر تنازع کے منصفانہ اور دیرپا حل کی  تلاش کا اعادہ کیا گیا ہے۔

قرارداد کے مسودے کو اردن سمیت 48 سے زائد ممالک نے مشترکہ طور پر پیش کیا ۔اس  قرارداد کی منظوری اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی اکثریت کی جانب سے جنگ بندی کے پرزور مطالبے کی عکاسی کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تمام قراردادوں کا بہت اہم اخلاقی اور سیاسی اثر و رسوخ ہے۔ تاہم،   اقوام متحدہ کی قراردادوں پر  عمل درآمد کا قانونی اختیار  اس عالمی ادارے کے پاس نہیں ہے

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکہ نے روس اور برازیل کی طرف سے جنگ بندی سے متعلق قراردادوں کے مسودے کو دو مرتبہ ویٹو  کیا ہے۔دوسری جانب امریکہ کے تجویز کردہ قرارداد کے مسودے میں جنگ بندی کا کوئی حصہ شامل نہیں  تھا  اس لیے اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی تھی ۔ اعداد و شمار کے مطابق 1945 سے اس سال اکتوبر تک سلامتی کونسل میں فلسطین اسرائیل مسئلے پر کل 36 قراردادوں کو مستقل ارکان  کی جانب سے ویٹو کیا گیا  جن میں سے 34  بار  جس ملک نے قراردادوں کو  ویٹو  کیا وہ، امریکہ ہے ۔تاہم، عدل و انصاف اور عوام کی حمایت کو بڑی طاقتیں متاثر نہیں کر سکتیں۔

فلسطین اسرائیل تنازع کے موجودہ دور میں، امریکہ نے بارہا اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق  پر زور دیا ہے۔ تاہم، بہت سے ممالک نے نشاندہی کی ہے کہ اپنے دفاع کا حق  عام شہریوں کے خلاف  جوابی کارروائی کا بہانہ نہیں بن سکتا۔ اقوام متحدہ کی 78ویں جنرل اسمبلی  کے صدر ڈینس فرانسس نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ  "اپنے دفاع کا حق اندھا دھند اور غیر متناسب انتقامی کارروائی کی اجازت نہیں دے سکتا اور نہ ہی اس کا کوئی  جواز بن سکتا ہے۔"

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں امریکی نمائندے کی تقریر کے دوران، مختلف ممالک کے نمائندوں نے احتجاجاً پوڈیم کی طرف منہ موڑ لیا  ۔ تنازعات کے  حالیہ دور کے آغاز میں، امریکہ اور اس کے جی سیون اتحادیوں نے تنازعے پر ایک بیان جاری کیا۔لیکن چیئرمین ملک جاپان نے حصہ نہیں لیا  اور یہ جی سکس کا بیان بن گیا۔جنگ بندی کے حوالے سے یورپی یونین بھی تقسیم ہے: فرانس، سپین، ہالینڈ، آئرلینڈ اور دیگر جنگ بندی کی حمایت کرتے ہیں، لیکن جرمنی، آسٹریا اور چیک ریپبلک جنگ بندی کی فزیبلٹی پر سوال اٹھاتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کے مسودے پر ووٹنگ میں برطانیہ، جرمنی، جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی یونین کے رکن ممالک کی اکثریت نے ووٹنگ سے  اجتناب کیا  جب کہ  فرانس اور سپین نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔

امریکہ کے اندر بھی شکوک و شبہات کی آوازیں زور پکڑ رہی ہیں۔ حال ہی میں، امریکی محکمہ خارجہ کے سینیئر اہلکار جوش پال نے استعفیٰ دے دیا کیونکہ وہ اسرائیل کے بارے میں امریکی پالیسی سے متفق نہیں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کے لیے امریکہ کی حمایت دنیا کو مزید ہنگامہ خیز اور بدتر بنا دے گی۔

29  اکتوبر تک فلسطین اسرائیل تنازع کے اس دور کے نتیجے میں  9510 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں  غزہ میں 8005 افراد ہلاک ہوئے جن میں 3342 بچے اور 2062 خواتین  بھی شامل ہیں۔ یہ صرف اعداد نہیں ہیں، یہ انسانی زندگیاں تھیں جو ختم ہو گئیں ۔ تاہم، امریکی صدر بائیڈن نے 25 اکتوبر کو وائٹ ہاؤس کی پریس کانفرنس میں ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا "مجھے نہیں لگتا کہ فلسطینی سچ کہہ رہے ہیں۔مجھے یقین ہے کہ وہاں بے گناہ لوگ مر رہے ہیں، لیکن یہ جنگ شروع کرنے کی قیمت ہے۔"

اصول تو یہ کہتا ہے کہ تمام عام شہریوں کے جینے کے  حق کی یکساں قدر کی جانی چاہیے اور  اس معاملے پر دوہرا معیار نہیں ہونا چاہیے۔ جیسا کہ اردن کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے کہا   "ہمیں تمام زندگیوں کی پرواہ ہے، تمام شہریوں کی، چاہے وہ مسلمان ہوں، عیسائی ہوں، یہودی ہوں ،فلسطینی ہوں  یا اسرائیلی ، سب کی زندگیوں کی پرواہ ہے"۔