" دنیا کو "مشترکہ سلامتی" کی طرف کیسے لے جایا جائے؟

2023/11/01 10:44:26
شیئر:

"ہمیں تمام فریقوں کی آواز کو سننا چاہیے اور جیت  جیت کا تصور اپنانا چاہیے۔ یہ بیجنگ شیانگ شان فورم کی تجویز ہے۔" افغانستان  ڈویلپمنٹ اینڈ پیس ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر  جناب خادم کی جانب سے  بیجنگ شیانگ شان فورم پر یہ تبصرہ  بہت سے شرکاء  کی آواز ہے۔ 31 اکتوبر کو 10 واں بیجنگ شیانگ شان فورم بیجنگ میں اختتام پذیر ہوا۔ اجلاس کے دوران، 100 سے زائد ممالک، خطوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے 1,800 سے زائد نمائندوں نے "مشترکہ سلامتی اور پائیدار امن" کے موضوع پر مکالمے اور تبادلہ خیال  میں حصہ لیا ۔اس بار شرکاء کی تعداد  اب تک کی سب سے بڑی تعداد تھی ۔

یوکرین کے موجودہ بحران اور فلسطین-اسرائیل تنازعے کے تناظر میں، فورم کی  مقبولیت  نے  سیکورٹی کے مسائل پر مشترکہ بات چیت ، تبادلوں اور رابطوں کو بڑھانے کی دنیا کی  خواہش کو ظاہر  کیا ہے ۔ اجلاس میں شریک ماہرین نے مزید سفارت کاری، مزید مذاکرات اور مزید تبادلوں پر زور دیتے ہوئے امن اور سلامتی کا مشترکہ   مطالبہ   کیا ۔

موجودہ دور میں  چین کی طرف سے پیش کردہ عالمی سیکورٹی انیشیٹو ،عالمی سیکورٹی گورننس کے لیے ایک اہم حل بن گیا ہے اور اسے 100 سے زائد ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے مثبت جواب ملا ہے۔ عالمی سیکورٹی انیشیٹو  کو نافذ کرنے کے لیے ایک اہم  میکانزم  اور پلیٹ فارم کی حیثیت سے، بیجنگ شیانگ شان فورم، "مشترکہ سلامتی، پائیدار امن" کے موضوع پر، اس انیشیٹو کے بنیادی تصور  کا احاطہ کرتا ہے اور تمام فریقوں کو سیکیورٹی حکمت عملی تلاش کرنے اور سیکیورٹی تعاون کو فروغ دینے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

"مشترکہ سلامتی" کی طرف کیسے لے جایا جائے؟    شیانگ شان فورم میں باہمی مکالمے کے ذریعے لوگوں کو ایک واضح خیال میسر ہوا ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑے ممالک بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے میں خصوصی اور اہم ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ اسی لیے  بیٹھنے اور بات کرنے کا موقع ، شیانگ شان فورم کے شرکاء کے اہم تاثرات میں سے ایک ہے۔ مشترکہ سلامتی کی طرف رہنمائی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ملکوں کے درمیان اختلافات اور تنازعات کو مذاکرات اور مشاورت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔اس  سے  سیکورٹی کے مفہوم اور توسیع کو تقویت ملتی ہے، نیٹ ورک سیکورٹی اور بائیو سیکورٹی سمیت عالمی غیر روایتی سیکورٹی مسائل پر توجہ مبذول ہوتی ہے  اور "مشترکہ سلامتی" کے حصول کے لیے روایتی اور غیر روایتی شعبوں میں سیکورٹی کی بحالی کو مربوط کرنے کی ضرورت بھی اجاگر ہوتی ہے ۔