مقامی وقت کے مطابق 15 نومبر کو، چینی صدر شی جن پھنگ اور امریکی صدر جو بائیڈن نے فلولی اسٹیٹ میں تقریباً چار گھنٹے تک طویل بات چیت کی۔ جس میں سیاسی سفارت کاری، عوامی اور ثقافتی تبادلے، عالمی گورننس، فوج اور سلامتی کے شعبوں میں 20 سے زیادہ اتفاق رائے طے پائے اور "سان فرانسسکو ویژن" کی تشکیل کی گئی جو چین-امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے اور ترقی دینے کی سمت کی نشاندہی کرتا ہے، اور ہنگاموں اور تبدیلی کی دنیا میں یقین اور استحکام دیتا ہے۔ بی بی سی کا خیال ہے کہ "چین-امریکی سربراہی ملاقات میں کئی پہلوؤں سے پیش رفت ہوئی ہے۔"
اس ملاقات میں صدر شی نے چین اور امریکہ کے درمیان ایک نئے وژن کی تجویز پیش کی۔ "سان فرانسسکو ویژن" کیا ہے؟ چین اسے چین-امریکہ تعلقات کی تعمیر کے لیے مشترکہ کوششوں کے "پانچ ستون" کے طور پر بیان کرتا ہے۔دونوں فریقوں کو مشترکہ طور پر ایک درست مفاہمت قائم کرنی،مؤثر طریقے سے اختلافات کو کم کرنا ، باہمی فائدہ مند تعاون کو فروغ دینا ، بڑی طاقتوں کی ذمہ داریوں کو نبھانا، اور عوامی اور ثقافتی تبادلوں کو فروغ دینا چاہیئے۔
"سان فرانسسکو ویژن" کو عملی جامہ پہنانے کے لیے، بنیاد یہ ہے کہ چین اور امریکہ ایک دوسرے کے بارے میں صحیح فہم رکھتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں چین-امریکہ کے تعلقات نچلی سطح پر پہنچنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ امریکہ نے غلطی سے چین کو اپنا اہم حریف اور سب سے اہم جیو پولیٹیکل چیلنج سمجھا اور غلط پالیسیاں اور اقدامات اپنائے۔ ملاقات کے دوران صدر شی نے چین کی ترقی کے امکانات اور تزویراتی ارادوں کی تفصیل سے وضاحت کی۔ خاص طور پر تائیوان کے معاملے پر، چین امریکہ سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ون چائنا پالیسی کی پاسداری کرے، "تائیوان کی علیحدگی کی مخالفت کرے، تائیوان کو مسلح کرنا بند کرے، اور چین کی پرامن وحدت کی حمایت کرے۔
آج، سان فرانسسکو چین امریکہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے ایک نیا نقطہ آغاز بننا چاہیے۔ امید ہے کہ امریکہ بالی اتفاق رائے سے انحراف سے سبق سیکھے گا، وہی غلطیاں نہیں دہرائے گا، حقیقی معنوں میں چین کے ساتھ مل کر کام کرے گا، اور دونوں سربراہان مملکت کے درمیان طے پانے والے اہم اتفاق رائے کو عملی جامہ پہنائے گا۔ سان فرانسسکو سے دوبارہ شروع کریں اور اپنے وژن کو حقیقت میں بدل دیں۔