فلسطین اسرائیل مسئلے پر چین کی تجویز کو بین الاقوامی سطح پر کیوں تسلیم کیا گیا؟سی ایم جی کا تبصرہ

2023/11/23 09:34:19
شیئر:

" فلسطین اسرائیل مسئلے پر چین نے ہمیشہ منصفانہ کردار ادا کیا ہے جسے عرب اور اسلامی ممالک نے قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے اور لوگوں کو چین سے زیادہ مثبت کردار ادا کرنے کی بہت زیادہ امیدیں ہیں"۔ اکیس تاریخ کو چین کے صدر شی جن پھنگ کی جانب سے فلسطین اسرائیل  مسئلے پر برکس رہنماؤں کی خصوصی ویڈیو سمٹ میں تقریر کے بعد مصر کے اخبار  "الاحرام" نے ایسا ہی تبصرہ کیا ۔

 واضح رہے کہ صدر شی جن پھنگ کی تقریر سے ایک روز قبل عرب اور اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ وفد نے چین کا دورہ کیا تھا۔ فلسطین اسرائیل تنازعے کی بین الاقوامی ثالثی میں پہلے اسٹاپ کے طور پر چین کا انتخاب چین پر ان ممالک کے اعلی اعتماد اور چین کے منصفانہ موقف کو  تسلیم کرنے کی عکاسی کرتا ہے۔ مئی میں ایک پولنگ تنظیم یو گون کی جانب سے کرائے گئے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ 80 فیصد فلسطینی جواب دہندگان نے اسرائیل اور فلسطین کے تنازع میں ممکنہ امن ثالث کے طور پر چین کو ترجیح دی تھی۔

 چین کی تجویز کو تنازع کے دونوں فریقوں اور بین الاقوامی برادری نے عالمی سطح پر کیوں تسلیم کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ چینی امن سے محبت کرتے ہیں، تشدد کی مخالفت کرتے ہیں، ہمیشہ منصفانہ بات کرتے ہیں اور  مثبت کام کرتے ہیں. فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے پر امریکہ کی "یکطرفہ" پالیسی کے برعکس چین کے کوئی ذاتی مفادات نہیں ہیں اور وہ کسی کی طرف داری نہیں کرتا۔ بعض ماہرین نے نشاندہی کی کہ چین فلسطین اور اسرائیل دونوں کا مشترکہ دوست ہے اور فلسطینیوں کی بقا ، اپنے ملک  کے قیام اور وطن واپسی کے حق کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی بقا اور سلامتی کی ضروریات کے بارے میں بھِی فکر مند ہے۔ چین ہمیشہ عدل و انصاف کے شانہ بشانہ کھڑا رہا ہے۔ جیسا کہ امریکی جریدے "دی ڈپلومیٹ" نے تبصرہ کیا، چین "حقیقی غیر جانبدار فریق" ہے۔

 تمام فریقین کی مشترکہ کوششوں سے اسرائیلی حکومت اور حماس نے 22  تاریخ  کو  اعلان کیا کہ چار روزہ جنگ بندی کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔ تاہم مختصر فائر بندی سے فلسطین اسرائیل مسئلہ بنیادی طور پر حل نہیں ہوگا۔ سلامتی کونسل کی قرارداد 2712 پر جلد از جلد عمل درآمد ہونا چاہیے اور  مسئلے کے حتمی حل سے متعلق چین کی تجویز فلسطین ،اسرائیل اور بین الاقوامی برادری کی جانب سے گہرائی سے غور و خوض کی مستحق ہے۔ فلسطین کا مسئلہ دنیا کے لیے ناقابل تلافی زخم نہیں بننا چاہیے۔