26 نومبر کو یونان کے وزیر اعظم کریاکس متسوٹاکس نے برطانیہ کا دورہ کیا۔ بی بی سی کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں انھوں نے کہا کہ یونان نے برٹش میوزیم سے پارتھنن کے سنگ مرمر کے مجسمے واپس کرنے کو کہا ہے۔ یونان طویل عرصے سے برٹش میوزیم سے ان مجسموں کو واپس کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے لیکن اس کا مطالبہ مسترد کیا جاتا رہا ہے۔
برٹش میوزیم ، برطانوی نوآبادیاتی تاریخ کا ایک نمائشی ہال ہے۔ یونیسکو کے نامکمل اعداد و شمار کے مطابق، بیرون ملک چین کے کم از کم 1.64 ملین ثقافتی آثار موجود ہیں اور برٹش میوزیم ان عجائب گھروں میں سے ایک ہے جس میں چین کے کھو جانے والے ثقافتی آثار کا سب سے بڑا مجموعہ ہے. چین سمیت کئی ممالک نے لوٹے گئے ثقافتی آثار کی واپسی کے لیے مسلسل کوششیں کی ہیں لیکن برطانیہ نے ہمیشہ 'ثقافتی آثار کی حفاظت' کے بہانےان جائز مطالبات سے انکار کیا ہے۔ حتی کہ 1963 میں برطانوی پارلیمنٹ نے برٹش میوزیم ایکٹ میں ترمیم بھی کی تھی تاکہ قانون سازی کی شکل میں ثقافتی آثار کی واپسی پر پابندی عائد کی جا سکے۔
ثقافتی آثار میں کسی بھی قوم کے تاریخی جذبات اور ثقافتی یادیں محفوظ ہوتی ہیں۔ گزشتہ برسوں میں ، دنیا بھر کے بہت سے ممالک کوشش کر رہے ہیں کہ برٹش میوزیم اور برطانوی حکومت سے لوٹی گئی نوادرات واپس لی جا سکیں اور بنیادی طور پر یہ بین الاقوامی نوآبادیاتی مخالف تحریک کا حصہ ہیں. نوآبادیاتی دور ختم ہو چکا ہےبرطانیہ کو بہت سے ممالک کے جائز مطالبات مانتے ہوئے لوٹے ہوئے ثقافتی آثار کو جلد از جلد واپس کرنا چاہیے اور برطانوی نوآبادیاتی تاریخ کے سیاہ باب کو مکمل طور پر تاریخ بنا دینا چاہیے۔