موسمیاتی تبدیلی پر عالمی تعاون ناگزیر ہو چکا ہے

2023/11/30 15:00:16
شیئر:

 

جب میں  بیجنگ کی سڑکوں پر گاڑی چلاتا ہوں تو مجھے سبز نمبر پلیٹ والی نئی توانائی کی گاڑیاں ہر جانب دکھائی دیتی ہیں۔میں اب بھی  پٹرول  پر چلنے والی گاڑی چلاتا ہوں اور جب اتنی ساری نیو انرجی گاڑیوں کو  دیکھتا ہوں تو خیال آتا ہے کہ مجھے بھی اب ٹیکنالوجی تبدیل کر لینی چاہئے. اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جون کے آخر تک چین کی نیو انرجی گاڑیوں کی تعداد  16.2 ملین تک پہنچ گئی، جو چین میں تمام  کاروں کی کل تعداد کا 4.9 فیصد بنتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں دنیا کی آدھی سے زائد نیو انرجی گاڑیاں چین میں ہیں اور یہ تعداد حیران کن  شرح سے بڑھ رہی ہے، اب جب چینی نوجوان نئی گاڑیاں خریدتے ہیں تو  نیو انرجی گاڑیاں ان کا پہلا انتخاب بن چکی ہیں، یہ رجحان چین کی کم کاربن زندگی اور  گرین ڈیولپمنٹ حکمت عملی کے بھرپور فروغ کا ایک نمونہ ہے۔

شدید موسمی حالات، سمندر کی بڑھتی ہوئی سطح اور ماحولیاتی نظام کی تباہی نے لوگوں کی زندگیوں اور رہنے کے ماحول کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ہمیں یہ بھی اچھی طرح یاد ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال مون سون کی بارشوں اور سیلاب سے سولہ سو  سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ آب و ہوا کی تبدیلی ایک سنگین عالمی چیلنج بن چکی ہے  جو انسانی معاشرے، معیشت اور ماحولیاتی نظام کے لئے ایک بے مثال خطرہ ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لئے تمام ممالک کی کوششوں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ فعال عالمی تعاون کی ضرورت ہے۔ موسمیاتی تبدیلی سے متعلق اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن کے فریقین کی اٹھائیسویں کانفرنس، جو اس ماہ کے آخر میں دبئی، متحدہ عرب امارات میں منعقد ہو رہی ہے ، موسمیاتی بحران کی طرف عالمی توجہ کا ایک اہم موقع ہے۔ اجلاس میں عالمی رہنما آب و ہوا کے بحران سے نمٹنے کے لئے حکمت عملی اور وعدوں پر تبادلہ خیال کرنے  اور تصفیہ  تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ کانفرنس میں موسمیاتی تبدیلیوں پر عالمی تعاون کے مفید تجربے اور مثبت نتائج جیسا کہ نئی توانائی کی ترقی کا جامع خلاصہ پیش کیا جائے گا، قومی سطح پر طے شدہ شراکت داری (این ڈی سی) کی مجموعی پیش رفت، خامیوں اور گنجائش کا جائزہ لیا جائے گا، اور ان  مسائل کی  وجوہات  اور اسباق کا خلاصہ پیش کیا جائے گا، تاکہ پیرس معاہدے پر عمل درآمد میں بین الاقوامی برادری میں اعتماد اور امید پیدا کی جاسکے اور اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ عالمی موسمیاتی حکمرانی صحیح راستے پر ہے۔

چین سرکاری اور نجی دونوں سطحوں پر آب و ہوا کی تبدیلی کو بہت اہمیت دیتا ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے فعال طور پر نمٹنے کے لئے ایک قومی حکمت عملی پر عمل درآمد کرتا ہے، کاربن پیک  اور کاربن  نیوٹرل کے اہداف کا اعلان کیا گیا ہے،صنعتی تنظیم نو کو فروغ دیا گیا  ہے، اور توانائی کے استعمال  اور کارکردگی میں بہتری، مارکیٹ میکانزم کے قیام اور بہتری، اور فارسٹ کاربن سنک میں اضافے جیسے اقدامات کا ایک سلسلہ اختیار کیا گیا ہے، تاکہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے میں مثبت پیش رفت ہو سکے. ایک ہی وقت میں، چین کثیر الجہتی موسمیاتی عمل میں فعال طور پر حصہ لیتا ہے، آب و ہوا کی تبدیلی پر جنوب-جنوب تعاون کو گہرا کرتا ہے، اور ایک منصفانہ، معقول اور جیت جیت  والے عالمی ماحولیاتی حکمرانی کے نظام کی تعمیر کو فروغ دیتا ہے۔اب تک، چین نے 40 ترقی پذیر ممالک کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی پر جنوب-جنوب تعاون کے حوالے سے 48 مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں،اور 120 سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کے لئے موسمیاتی تبدیلی کے شعبے میں 2،400 سے زیادہ عہدیداروں اور تکنیکی ماہرین کو تربیت دی ہے. گزشتہ ماہ کی 25 تاریخ کو اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی میں چائنا پاکستان ارتھ سائنس ریسرچ سینٹر کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی جو اس بات کی علامت ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے، سائنسی اور تکنیکی صلاحیتوں کے تبادلے کو مضبوط بنانے اور تعاون کے میکانزم کو فروغ دینے میں چین اور پاکستان  کے تعاون میں  نئی پیش رفت حاصل ہوئی ہے۔

موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا ایک پیچیدہ اور مشکل کام ہے جس کے لئے ممالک کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں انسانیت کے ہم نصیب معاشرے  کے وژن کو برقرار رکھنا چاہئے، ہم آہنگی اور تعاون کو مضبوط بنانا چاہئے، مشترکہ طور پر موسمیاتی تبدیلی کے عالمی چیلنج سے نمٹنا چاہئے اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک خوبصورت گھر چھوڑ کر جانا چاہئے. بہرحال چھوٹی سی زمین اتنی بڑی اور  مضبوط  نہیں جتنی لوگ سوچتے ہیں، اور تمام لوگوں کی قسمت آپس میں جڑی ہوئی ہے۔ چاہے آپ شمالی امریکہ کے براعظم میں ہی کیوں نہ ہوں، جنگ آپ کو متاثر نہیں کرے گی اور پناہ گزینوں کی کشتیاں آپ کے گھر  پہنچنے کے لیے سمندر پار نہیں کر سکیں گی ، پھر بھی آپ اکیلے نہیں رہ سکتے، اور آپ دنیا کی چوٹی پر بیٹھ کر کافی پیتے ہوئے  اپنے پیروں تلے سیلاب دیکھ  نہیں سکتے ۔