چین کا موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے توانائی کی تبدیلی کا فعال فروغ

2023/12/07 16:09:56
شیئر:

اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمیٹ چینج کی اٹھائیسویں کانفرنس آف دی پارٹیز   یعنی کاپ 28 ،  تیس نومبر سے بارہ  دسمبر تک،متحدہ عرب امارات میں منعقد ہو رہی ہے۔ کانفرنس کے دوران  مختلف حلقوں نے عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کا جواب دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیا اورموسمیاتی تبدیلیوں میں چین کی شراکت بالخصوص توانائی کی تبدیلی میں چین  کے اہم کردار کو سراہا   ۔

کاپ 28 کے چیئرمین سلطان الجابر  نے کہا کہ چین نے موسمیاتی تبدیلیوں کے ردعمل میں عالمی سطح پر  بہت زیادہ تعاون کیا ہے اور  قابل تجدید توانائی کی عالمی ترقی میں  چین  رہنما ثابت ہوا  ہے۔ بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر فاتح بیرول نے نشاندہی کی کہ چین نے صاف توانائی سے متعلق آلات کی  قیمت میں کمی  کی جو اس میدان میں  چین کی اہم خدمت ہے،اور  دنیا کے دیگر ممالک میں صاف توانائی کی ترقی کے لیے مددگار  بھی ہے۔ بلومبرگ نے ایک تجزیے میں نشاندہی کی  ہے کہ چین کی  شمسی اور  پون بجلی کی نئی نصب شدہ صلاحیت اس سال ایک ریکارڈ سطح  تک پہنچنے کی توقع ہے۔ صاف توانائی کے اتنے بڑے پیمانے پر اضافے سے چین  2030 سے پہلے  کاربن پیک تک پہنچ سکتا ہے۔

سبز اور کم کاربن توانائی کی ترقی " کاربن پیک اور کاربن نیوٹریلٹی" کے ہدف کو حاصل کرنے کی کلید ہے۔ ایک ذمہ دار بڑے ترقی پذیر ملک کے طور پر، چین کاربن کے اخراج  میں دنیا کی سب سے زیادہ کمی حاصل کرے گا اور عالمی تاریخ میں سب سے کم وقت میں کاربن پیک سے کاربن نیوٹریلٹی تک پہنچ جائے گا۔ چین کی نصب شدہ  پون  بجلی  عالمی منڈی میں نصف سے زیادہ ہے، دنیا کی لگ بھگ نصف فوٹو وولٹک پاور جنریشن کی صلاحیت چین میں ہے اور دنیا کی نصف سے زیادہ نئی توانائی کی گاڑیاں چین میں چل رہی  ہیں.

اس کے ساتھ ساتھ چین ترقی پذیر ممالک کی سبز توانائی کی تبدیلی کے لیے سرگرم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس وقت چین نے 32   ممالک کے ساتھ " بیلٹ اینڈ روڈ" توانائی کی شراکت داری قائم کی ہے اور 100 سے زائد ممالک اور خطوں کے ساتھ سبز توانائی کے منصوبوں میں تعاون کیا ہے۔ متعدد پاکستانی ماہرین نے کہا  ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرنے  میں اہم کردار ادا کرے گی۔ پاکستان کے معروف اخبار  "دی نیش" نے ایک  مضمون  میں لکھا ہے کہ چین "بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو" کی سبز ترقی کو فروغ دینے کے لیے پرعزم ہے، جس میں سبز بنیادی ڈھانچے، سبز توانائی، سبز نقل و حمل اور دیگر شعبوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور  چین عالمی آب و ہوا کی گورننس کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔

ترقی پذیر ممالک موسمیاتی تبدیلیوں کا سب سے زیادہ شکار ہیں اور اس مسئلے پر ترقی یافتہ ممالک   کو قانونی اور اخلاقی ذمہ داریاں نبھانا چاہیئں ۔ ایک منصفانہ، معقول، جیت جیت تعاون پر مبنی  عالمی موسمیاتی حکمرانی کے نظام کے قیام  کے لیے، چین  نے ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر ترقی یافتہ ممالک پر ہمیشہ  زور دیا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے اپنے وعدوں کو پورا کریں جس کے لئے   اس نے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ فعال تعاون  بھی جاری رکھا ہے۔ 15 نومبر کو چین اور امریکہ نے موسمیاتی بحران سے نمٹنے  میں  تعاون کو مضبوط بنانے کے لیے  "سنی لینڈ اسٹیٹمنٹ" جاری کیا۔ یہ بیان موسمیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے چین، امریکہ اور دیگر ممالک کے مشترکہ موقف کو ظاہر کرتا ہے اور  تمام فریقوں کے اعتماد کو بڑھانے میں مدد گار ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک 2030 تک عالمی قابل تجدید توانائی کی موجودہ  نصب شدہ  صلاحیت کو تین گنا کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے اور اس ضمن میں  دونوں ممالک قابل تجدید توانائی کی ترقی کو تیز کریں گے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ توانائی کی تبدیلی اگلے مرحلے میں دونوں ممالک کے درمیان تعاون کا اہم شعبہ بن جائے گی۔

کاپ 28کے افتتاحی دن ،   لاس اینڈ  ڈیمج فنڈ شروع کرنے پر اتفاق ہوا جو اربوں لوگوں کی زندگیوں اور معاش کو متاثر کر سکتا ہے ۔ یہ یقیناً ایک مثبت اشارہ ہے۔ فی الحال کانفرنس کی توجہ پیرس معاہدے کے نفاذ کا جائزہ لینے پر  مرکوز ہے۔امید ہے کہ ترقی یافتہ ممالک  اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں گے جس سے  اس مسئلے سے نمٹنے میں  عالمی تعاون کا ایک مثبت اشارہ دنیا کو ملے گا اور   عالمی  سطح پر ترقی پذیر ممالک کے خدشات کا پوری طرح سے جواب دیا جا سکے گا۔