حال ہی میں جنیوا میں منعقدہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے کنٹری پریکٹسز ریویوز سے متعلق ورکنگ گروپ کے 45 ویں اجلاس میں ملکی جائزے کے چوتھے دور میں چین کی رپورٹ کی متفقہ طور پر منظوری دے دی گئی۔ا جلاس میں اپنی تقاریر میں بہت سے ممالک نے چین کو انسانی حقوق کونسل کا چھٹی مرتبہ رکن منتخب ہونے اور عہدے کی نئی مدت کے آغاز پر مبارکباد دی ، اور عالمی انسانی حقوق کی حکمرانی میں بین الاقوامی مساوات اور انصاف کے تحفظ کے لئے چین سے بلند توقعات کا اظہار کیا ۔
جائزے کے دوران شرکاء اجلاس کی اکثریت نے انسانی حقوق کے شعبے میں چین کی کامیابیوں کو سراہا۔ 120 سے زائد ممالک نے انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ میں چین کے عمل اور کامیابیوں کی مکمل توثیق کرتے ہوئے چین کی تعریف کی کہ اس نے ہمہ گیر عوامی طرز جمہوریت پر عمل کیا ، انسانی حقوق کے قومی ایکشن پلان کی تشکیل اور نفاذ کیا ، خواتین کے حقوق اور مفادات کے تحفظ سے متعلق قانون اور معذور افراد کے لئے سماجی تحفظ اور خدمات کے نظام کو مسلسل بہتر بنایا۔ ان کا ماننا ہے کہ انسانی حقوق کی ترقی کے حوالے سے چین کا راستہ تمام ممالک، بلخصوص ترقی پذیر ممالک کو آزادانہ طور پر انسانی حقوق کی ترقی کی راہ تلاش کرنے کے لئے ایک نیا انتخاب فراہم کرتا ہے. اگر ہم ملکی انسانی حقوق کے جائزے کو ہر ملک کے لئے پانچ سالہ امتحان کے طور پر دیکھیں تو بلاشبہ چین نے بین الاقوامی برادری کو اس حوالے سے بہترین جواب دیا ہے۔
عہد نو کے آغاز سے لے کر اب تک چین نے پہلا صد سالہ ہدف حاصل کیا ہے، تقریباً 100 ملین دیہی غریب باشندوں کو غربت سے نکالا ہے، مطلق غربت کے مسئلے کا خاتمہ کیا ہے، اور اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے ایجنڈے کے 2030 کے غربت کے خاتمے کے ہدف کو مقررہ وقت سے 10 سال پہلے حاصل کیا ہے۔
چین نے دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی، سماجی تحفظ اور طبی اور صحت کا نظام تعمیر کیا ہے، جس میں بڑھاپے کی بنیادی انشورنس میں شمولیت کی تعداد 1.06 بلین تک جا پہنچی ہے اور بنیادی طبی انشورنس میں شرکت کا تناسب 95 فیصد تک مستحکم رہا ہے. شہری علاقوں میں ہر سال 13 ملین سے زیادہ نئی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں ، اور شہری اور دیہی علاقوں میں رہائشی حالات میں نمایاں بہتری آئی ہے۔
گزشتہ دہائی کے دوران، چین میں فضائی معیار کے حوالے سے پی ایم 2.5 کے سالانہ اوسط ارتکاز میں 57 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے، جس سے دنیا میں یہ فضائی معیار میں بہتری کی تیز ترین شرح ہے۔ چین، دنیا میں قابل تجدید توانائی کا استعمال کرنے والا سب سے بڑا ملک اور جنگلاتی وسائل میں اضافے کے اعتبار سے بھی سب سے بڑا ملک ہے. اس وقت، دنیا میں فوٹو وولٹک بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا تقریباً نصف حصہ چین کے پاس ہے، دنیا کی نصف سے زیادہ نیو انرجی گاڑیاں چین میں چلائی جاتی ہیں، اور دنیا کے نئے سبز علاقوں کا ایک چوتھائی حصہ چین سے آتا ہے.
انسانی حقوق کے حوالے سے چین کی تاریخی کامیابیوں کی کلید انسانی حقوق کی آفاقیت کے اصول کو چین کے مخصوص حقائق کے ساتھ مربوط کرنے اور چین کے قومی حالات کے مطابق انسانی حقوق کی ترقی کی راہ تلاش کرنے میں مضمر ہے۔ انسانی حقوق کی ترقی کا کوئی ایک معیاری راستہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی طے شدہ ترقیاتی ماڈل ہے۔ حقائق سے صرف نظر کرتے ہوئے دوسرے ممالک کے نظام اور ماڈلز کو مکمل طور پر نقل کرنا نہ صرف نامناسب ہوگا بلکہ اس کے تباہ کن نتائج بھی برآمد ہو سکتے ہیں ۔ جائزہ اجلاس میں شرکت کے دوران بہت سے ممالک نے اس بات کو بخوبی محسوس کیا۔
عوام کے مفادات کا تحفظ ممکن ہوا ہے کہ نہیں اور عوام کے فائدے، خوشی اور سلامتی کے احساس میں اضافہ ہوا ہے کہ نہیں، یہ کسی ملک کی انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینے کا سب سے اہم معیار ہے۔ چین عوام کو مرکزی ترجیح دینے کے ترقیاتی فلسفے پر عمل پیرا ہے اور زندگی کے حق اور ترقی کے حق کو بنیادی انسانی حقوق سمجھتا ہے۔چین سلامتی کے ذریعے انسانی حقوق کا تحفظ کرنے، ترقی کے ذریعے انسانی حقوق کو فروغ دینے اور تعاون کے ذریعے انسانی حقوق کو آگے بڑھانے کی وکالت کرتا ہے اور پوری کوشش کررہا ہے کہ معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق اور شہری و سیاسی حقوق کی جامع اور مربوط ترقی کو فروغ دیا جائے۔ چین عالمی تہذیبوں کے تنوع کا احترام کرتا ہے اور انسانی حقوق کے مسائل کو سیاسی رنگ دینے کی مخالفت کرتا ہے۔ چین اپنے ہاں تاریخی کامیابیوں کے حصول کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کی عالمی حکمرانی میں اپنی خدمات سرانجام دینے کی کوشش بھی کرتا رہا ہے.
2018 سے چین نے 30 سے زائد ممالک اور علاقوں کے ساتھ انسانی حقوق کے مکالمے اور تبادلے کیے ہیں، اور گلوبل ہیومن رائٹس گورننس پر اعلیٰ سطحی فورم اور ساؤتھ ساؤتھ ہیومن رائٹس فورم سمیت انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی کانفرنسوں کا انعقاد کیا ہے، جس میں تمام فریقوں کے مابین تبادلے اور باہمی سیکھنے کو فروغ دیا گیا ہے۔ چین نے طویل عرصے سے انسانی حقوق میں معاونت اور تعاون کیا ہے، اور انسانی حقوق کے ٹھوس نتائج سامنے لائے ہیں. سنہ 2022 میں صدر شی جن پھنگ نے عالمی ترقی سے متعلق اعلیٰ سطحی مکالمے میں اعلان کیا تھا کہ ساؤتھ ساؤتھ کوآپریشن اسسٹنس فنڈ کو گلوبل ڈیولپمنٹ اینڈ ساؤتھ ساؤتھ کوآپریشن فنڈ میں اپ گریڈ کیا جائے گا اور اس سرمائے کو بڑھا کر 4 ارب امریکی ڈالر کر دیا جائے گا۔ اس فنڈ کے قیام کے بعد سے چین نے تقریباً 20 بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ تعاون کیا ہے اور تقریباً 60 ممالک میں 130 سے زائد منصوبوں پر عمل درآمد کیا ہے جس سے 27 ملین سے زائد افراد مستفید ہوئے ہیں۔موجودہ جائزہ اجلاس کے دوران چین نے اعلان کیا کہ وہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے 30 نئے اقدامات اٹھائے گا جن میں لوگوں کے ذریعہ معاش اور فلاح و بہبود کو بہتر بنانا، انسانی حقوق کے قانونی تحفظ کو مضبوط بنانا، بین الاقوامی انسانی حقوق کے تعاون کو فروغ دینا اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق میکانزم کے کام کی حمایت کرنا شامل ہے۔ ان اقدامات کو تمام فریقوں نے بے حد سراہا ہے۔
انسانی حقوق کونسل میں چین کی تجاویز کا سلسلہ نہ صرف ترقی پذیر ممالک کے انسانی حقوق کے مطالبات کی مکمل عکاسی کرتا ہے اور انسانی حقوق پر مخصوص اجارہ داری کو توڑتا ہے، بلکہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی نصب العین کو درپیش سنگین چیلنجوں سے نمٹنے میں دانشمندی کا بھی کردار ادا کرتا ہے۔ چین کے "تین گلوبل انیشی ایٹوز" نے تمام ممالک کے لوگوں کے لئے انسانی حقوق کے بھرپور تحفظ کے حصول کی راہ ہموار کی ہے، اور چین کی ایک بڑے ملک کے طور پر ذمہ داری اور انسانیت کے ہم نصیب معاشرےکے تصور کو ظاہر کیا ہے. چین، چینی خصوصیات کے حامل انسانی حقوق کی ترقی کے راستے پر غیر متزلزل طور پر گامزن رہےگا ، انسانیت کے مستقبل اور عوام کی فلاح و بہبود کو ذہن میں رکھے گا، انسانی حقوق کی عالمی حکمرانی میں فعال طور پر حصہ لے گا، اور مشترکہ طور پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی نصب العین کی صحت مند ترقی کو فروغ دے گا.