چین کی وزارت تجارت کی جانب سے جاری تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں ملک میں غیر ملکی سرمائے کا اصل استعمال گیارہ کھرب تنتیس ارب یوآن سے زائد تھا جس میں سال بہ سال 8 فیصد کی کمی ہوئی۔ وزارت تجارت نے نشاندہی کی کہ اگرچہ غیر ملکی سرمائے کے حجم میں سال بہ سال کمی آئی لیکن مجموعی حجم بدستور حالیہ برسوں کی بلندی پر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کی کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ کی جانب سے جاری کردہ گلوبل انویسٹمنٹ ٹرینڈز مانیٹر کے مطابق 2023 میں عالمی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) میں سال بہ سال 3 فیصد اضافہ ہوا، لیکن یہ دیگر یورپی سرمایہ کاری ٹرانزٹ ممالک سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔اگر مذکورہ عوامل کو چھوڑ دیا جائے،تو عالمی ایف ڈی آئی میں دراصل 18 فیصد کی کمی ہوئی۔ ترقی یافتہ معیشتوں اور ترقی پذیر معیشتوں میں سرمایہ کاری بالترتیب 28 فیصد اور 9 فیصد کم ہوئی۔ چین میں آنے والی سرمایہ کاری کا حجم دنیا کا تقریباً 15 فیصد ہے، جو اب بھی دنیا میں سرفہرست ہے۔
بگڑتی ہوئی عالمی سیکورٹی صورتحال، سست معاشی ترقی اور سرمایہ کاری کے غیر یقینی امکانات کے باوجود، چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری حالیہ برسوں میں اب بھی ایک بلند سطح پر ہے، جو آسان نہیں ہے.ان میں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ 2023 میں ہائی ٹیک صنعتوں میں سرمایہ کاری کا حصہ 37.3 فیصد تھا، جو 2022 کے مقابلے میں 1.2 فیصد پوائنٹس اضافہ ہے اور یہ تناسب ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا ہے۔ سرمایہ کاری کے ڈھانچے میں بہتری چین کی اندرونی ترقی کی ضروریات کے مطابق ہے اور اعلیٰ معیار کی ترقی میں حصہ ڈالے گی.
اعداد و شمار سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 2023 میں ، چین میں غیر ملکی سرمایہ کاری سے چلنے والے نئے کاروباری اداروں کی تعداد میں 39.7 فیصد کا اضافہ ہوا۔ کینیڈا ، برطانیہ ، فرانس ، سوئٹزرلینڈ اور نیدرلینڈز کی جانب سے چین میں سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے ۔ یورپی یونین ، امریکہ اور جاپان کی سرمایہ کاری سے چین میں نئے قائم کاروباری اداروں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ جرمنی کی مثال لی جائے تو اگرچہ موجودہ جرمن حکومت جرمن کمپنیوں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنی تجارت کم کریں اور چین پر انحصار کم کریں، لیکن چین میں ان کی سرمایہ کاری گرنے کے بجائے بڑھ گئی ہے۔ 2023 میں ، چین میں جرمنی کی براہ راست سرمایہ کاری ریکارڈ 11.9 بلین یورو تک پہنچ گئی ، جو پچھلے سال کے مقابلے میں 4.3 فیصد زیادہ ہے۔ چین میں سرمایہ کاری جرمنی کی کل غیر ملکی سرمایہ کاری کا 10.3 فیصد ہے، جو 2014 کے بعد سے بلند ترین سطح ہے۔ یہ چینی مارکیٹ میں مواقع کا اشتراک کرنے کے لئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے جوش کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔
چین میں جرمن چیمبر آف کامرس کی جانب سے کیے گئے بزنس کانفیڈنس سروے سے ظاہر ہوتاہے کہ 91 فیصد جرمن کمپنیوں نے چینی مارکیٹ میں جڑیں پکڑنے کے عزم اظہار کیا ہے اور ان کا چین چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ سروے میں شامل نصف سے زائد جرمن کمپنیاں اگلے دو سالوں میں چین میں اپنی سرمایہ کاری بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ چین میں امریکن چیمبر آف کامرس کی جانب سے جاری کردہ ایک حالیہ سروے کے مطابق 50 فیصد امریکی کمپنیوں نے چین کو دنیا میں سرمایہ کاری کے لیے سرفہرست یا سرفہرست تین مقامات میں شامل قرار دیا ہے۔ چین میں یورپی یونین چیمبر آف کامرس کے ایک سروے میں شامل 59 فیصدکمپنیاں چین کو سرمایہ کاری کے تین اہم مقامات میں سے ایک قرار دیتی ہیں۔
چینی مارکیٹ پر غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد کہاں سے آتا ہے؟
سب سے پہلے، کاروباری ماحول کی مسلسل بہتری سب سے براہ راست وجہ ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کو مستحکم کرنے کے لئے 24 پالیسیوں اور اقدامات کا اجراء، مینوفیکچرنگ کے شعبے میں رسائی کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری پر عائد پابندیاں مکمل طور پراٹھا لی گئیں۔ پائلٹ فری ٹریڈ زونز کی تعداد کو 22 تک بڑھا دیا گیا ۔ آر اینڈ ڈی مراکز کے قیام میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے استعمال کو فروغ دیا جا رہا ہے۔۔. چین غیر ملکی کمپنیوں کی چین میں ترقی کے لیےمسلسل کوشش کرتا رہا ہے۔ دوسرا، چین موبائل مواصلات، انٹرنیٹ آف تھنگز، بلاک چین، کوانٹم انفارمیشن اور ہائی اینڈ چپس جیسے شعبوں میں جدید ترین پیداواری صلاحیت تخلیق کر رہا ہے،نئی معیاری پیداواری صلاحیت چینی معیشت کی اندرونی قوت محرکہ تشکیل دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ، اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین اب بھی جاپان، جنوبی کوریا اور ویتنام جیسے 120 سے زیادہ ممالک اور خطوں کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، اور "عالمی ویلیو چین" میں چین کا اہم کردار بدستور جاری ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ چین کی طویل مدتی اقتصادی ترقی کے مجموعی رجحان میں تبدیلی نہیں آئی۔ سنگاپور کے اخبار لیان ہہ زاو باؤ نے حال ہی میں ایک اداریہ شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ چین کی معیشت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے لیکن اس کی بنیادیں اب بھی مضبوط ہیں۔ اداریے میں سنگاپور کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خزانہ لارنس وانگ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ 'چین میں کساد بازاری پر کبھی شرط نہ لگائیں'۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ چین کا اقتصادی حجم بہت بڑا ہے اور جدید مینوفیکچرنگ، گرین اکانومی اور دیگر شعبوں میں چین کو بہت سی برتری حاصل ہے۔