حال ہی میں جاپانی حکومت فوجی اتحادوں کی مدد سے اپنی فوجی طاقت بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے اور 'جنگ کے خطرناک راستے' پر گامزن ہے۔ جاپان کے متعدد اقدامات میں سب سے زیادہ متنازع اقدام امریکہ اور جاپان کے فوجی اتحاد کی مضبوطی ہے۔ حالیہ برسوں میں امریکہ نے نام نہاد "انڈو پیسیفک حکمت عملی" پر عمل کیا ہے جبکہ جاپان میں دائیں بازو کی کچھ قوتوں نے امن پسند آئین کی زنجیروں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ امریکہ کی طاقت کو بھی استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ واشنگٹن میں امریکہ اور جاپان کے درمیان ہونے والی حالیہ سربراہی کانفرنس میں 60 سال سے زائد عرصے میں امریکہ اور جاپان کے درمیان سلامتی کے معاہدے کی سب سے بڑی اپ گریڈیشن کی گئی ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ جاپان میں امریکی فوجی ہیڈکوارٹرز کی تنظیم نو اور فوجی تعاون کو مضبوط بنانے کا مقصد سیلف ڈیفنس فورسز کے افعال کو تبدیل کرنا، سیلف ڈیفنس فورسز کو "جاپانی حملہ آور فورس" میں تبدیل کرنا اور امریکہ اور جاپان کے فوجی انضمام کو مضبوط بنانا ہے۔ ان نئے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جاپان امن پسند آئین سے مزید دور ہو رہا ہے اور کئی پہلوؤں سے امریکہ کی عالمی حکمت عملی کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، ایک "چھوٹا گروہ" بنا رہا ہے، اور چین کے خلاف اس کے عزائم زیادہ واضح ہیں۔
تجزیہ کاروں کی نظر میں جاپانی حکومت کا حتمی مقصد امن پسند آئین میں ترمیم کرنا اور فوجی شعبے میں" زنجیروں سے مکمل چھٹکارا "حاصل کرنا ہے۔ تاہم جاپان میں عوام کی اکثریت کی مخالفت کی وجہ سے جاپانی حکومت نے اس وقت آئین میں ترمیم کیے بغیر جنگ کے بعد کی فوجی پابندیوں کو توڑنے کی کوشش کی ہے، جس میں اتحادیوں جیسے دیگر ممالک کی مدد کے بہانے علاقائی تنازعات میں مداخلت بھی شامل ہے، تاکہ آہستہ آہستہ اپنے مقصد کو پورا کیا جا سکے۔
جاپانی حکومت کی جانب سے متعدد خطرناک اقدامات نے معاشرے کے تمام شعبوں میں اعلیٰ درجے کی چوکسی پیدا کر دی ہے۔جاپانی اخبار آساہی شمبن نے حال ہی میں تبصرہ کیا تھا کہ "ایک 'پرامن ملک' کے طور پر جاپان کے تشخص پر شک کیا جا رہا ہے۔ جیسا کہ جاپان میں انسٹی ٹیوٹ آف ایسٹ ایشین کمیونٹیز کے ڈائریکٹر سن چیسیانگ نے کہا کہ عسکریت پسندی کو روکنا اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنا جاپانی حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیئے ۔