14 اپریل کو صبح سویرے، ایران کے اسلامی پاسدران انقلاب نے اعلان کیا کہ اس نے اسرائیلی اہداف پر میزائل اور ڈرون داغے ہیں۔اس کے بعد اسرائیل کی دفاعی افواج نے کہا کہ اسرائیلی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے ایران کی طرف سے اسرائیل کی جانب داغے گئے کچھ ڈرونز اور میزائلوں کو مار گرایا۔
اس واقعے کے بعد اس دن مختلف ممالک نےاپنے بیانات میں کہا کہ ایران اور اسرائیل کے درمیان تنازعہ غزہ کی پٹی میں جاری تنازعے کے پھیلاؤ کا نتیجہ ہے۔ مختلف ممالک نے تمام فریقوں پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور صورتحال کو مزید خراب کرنے سے گریز کریں۔
روسی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ مشرق وسطیٰ کے بہت سے بحرانوں، خاص طور پر فلسطین اسرائیل تنازعہ، ابھی تک حل نہیں ہو سکے ہیں، اور غیر ذمہ دارانہ اور اشتعال انگیز اقدامات اکثر ان بحرانوں کو ہوا دیتے ہیں، جس سے علاقائی کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ روس تمام متعلقہ فریقوں سے تحمل کے اظہار کا مطالبہ کرتا ہے اور امید کرتاہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک موجودہ مسائل کو سیاسی اور سفارتی ذرائع سے حل کریں گے۔
اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے امریکی صدر کے ساتھ فون پر گفتگو میں زور دیا کہ علاقائی صورتحال کو بڑھنے سے روکنے کا واحد راستہ غزہ کی پٹی پرہونے والے حملوں کو فوری طور پر روکنا ہے۔
ترکیہ کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکیہ نے اسی دن بااثر مغربی ممالک کو واضح پیغام بھیجا تھا جس میں تمام فریقوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچنے کے لیے اقدامات کریں۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ شام میں ایرانی سفارت خانے کی عمارت پر اسرائیل کا حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔
شام کی وزارت خارجہ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوجی اہداف پر ایران کے حملے اس کے اپنے دفاع کے جائز حق کی مشق ہے اور شام اس کی حمایت کرتا ہے۔ بیان میں اسرائیل کی جانب سے شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی تباہی بالخصوص شام کی بنیادی تنصیبات کی تباہی کی بھی مذمت کی گئی جس کے نتیجے میں متعدد شامی شہری ہلاک ہوئے۔
اس کے علاوہ برازیل، میکسیکو، وینزویلا اور کولمبیا سمیت دیگر لاطینی امریکی ممالک نے بھی متعلقہ فریقوں سے تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ صورتحال کو مزید بگڑنے سے بچانے کے لیے متحرک ہو ں ۔