چین اور جرمنی کا اتفاق رائے مغرب کے "شور" کا ایک طاقتور جواب ہے

2024/04/17 15:40:39
شیئر:

 16 تاریخ کو چینی صدر شی جن پھنگ اور جرمن چانسلر اولاف شولز نے بیجنگ میں چین جرمنی تعلقات کی نوعیت اور اہم بین الاقوامی اور علاقائی امور پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا۔ چین نے نشاندہی کی کہ چین اور جرمنی کے درمیان مفادات کا کوئی بنیادی ٹکراؤ نہیں ہے ، اور فریقین کے مابین باہمی سود مند تعاون "خطرہ"  کے بجائے دوطرفہ تعلقات کے استحکام کی ضمانت اور مستقبل  کا موقع ہے۔ جرمنی نے  چین کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ بات چیت اور تعاون کو گہرا کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔ فریقین نے آزاد تجارت اور اقتصادی گلوبلائزیشن کی حمایت اور عالمی چیلنجز سے مشترکہ طور پر نمٹنے پر آمادگی کا بھی اظہار کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فریقین بہت سے اہم معاملات پر یکساں موقف رکھتے ہیں اور دنیا میں مزید استحکام اور یقین پیدا کرنے کے لئے مل کر کام کرسکتے ہیں۔ 

رواں سال چین اور جرمنی کے درمیان ہمہ جہت اسٹریٹجک شراکت داری کے قیام کی 10 ویں سالگرہ ہے۔ چانسلر شولز کا دورہ چین ظاہر کرتا ہے کہ چین سے متعلق  جرمن حکومت کی  پالیسی مجموعی طور پر معقول اور عملی رہی ہے۔ جرمنی میں بعض رائے عامہ کا خیال ہے کہ چاہے  جرمنی کو اپنی معاشی سست روی کے چیلنج سے نمٹنا ہو یا یوکرین بحران کو حل کرنا ہو، اُسے چین کے ساتھ تعاون کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ جرمنی اور چین کے درمیان دوطرفہ تجارت کا حجم 2023 میں 253.1 بلین یورو تک جا پہنچا ہے اور چین مسلسل آٹھ سال سے دنیا میں جرمنی کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ سروے کے مطابق نوے فیصد سے زائد جرمن کمپنیاں چین میں کاروبار جاری رکھیں گی اور 54 فیصد چین میں اپنی سرمایہ کاری بڑھانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔ چینی الیکٹرک گاڑیوں کے خلاف یورپی یونین کی  اینٹی سبسڈی  تحقیقات کے تناظر میں، جرمن آٹو انڈسٹری نے  واضح  کیاہے کہ وہ اس کے خلاف ہے.موجودہ دورے کے دوران دونوں رہنماؤں نے تحفظ پسندی کی مخالفت کا بھی اظہار کیا۔

 چین اور جرمنی نہ صرف ایک دوسرے کو کامیاب بنا سکتے ہیں بلکہ چین اور یورپی یونین کے تعاون میں بھی مزید خدمات سرانجام دے سکتے ہیں۔ وسیع تناظر میں یہ باہمی کامیابی عالمی امن و ترقی کو نقصان پہنچانے والے "شور" کو مؤثر طریقے سے ختم کر سکے گی۔