سلامتی کونسل کے مستقل رکن کی حیثیت سے امریکہ نے 18 اپریل کو عالمی ادارے میں فلسطین کی شمولیت کے بل کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کیا ، جس سے فلسطینی عوام کے دہائیوں پرانے خواب کو بے دردی سے چکنا چور کردیا گیا اور ایک بار پھر فلسطین اسرائیل مسئلے پر امریکہ کی منافقت اور "دوہرا معیار" بے نقاب ہوا جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ امریکہ کی "یکطرفہ" پالیسی فلسطین اسرائیل تنازع کےامن عمل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
اکتوبر 2023 میں فلسطین اسرائیل تنازعے کے ایک نئے دور کے آغاز کے بعد ، غزہ کی پٹی جنگ کا شکار ہے۔ فلسطینی قومی اتھارٹی غزہ کی صورتحال کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے سے قاصر ہے ، اور صرف بین الاقوامی برادری سے وسیع حمایت حاصل کرنے اور اسرائیل دباؤ ڈالنے کے لئے غزہ کی پٹی میں اس کی فوجی کارروائیوں کو جلد از جلد ختم کرنے کے لئےعالمی ادارے کی باضابطہ "رکنیت" کی درخواست ہی ایک امید تھی ۔ چین سمیت کئی ممالک کا یہ بھی ماننا ہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کو مکمل رکن کے طور پر تسلیم کرنے سے فلسطین کو اسرائیل کے مساوی حیثیت حاصل ہو گی اور فلسطین اسرائیل مذاکرات کے لیے حالات پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم امریکہ کے خصوصی ویٹو نے ایک بار پھر فلسطینی عوام کی امنگوں اور بین الاقوامی برادری کی کوششوں کو تباہ کر دیا ہے۔
تجزیہ کاروں نے نشاندہی کی ہے کہ ایک طرف داخلی سیاست اور دنیا میں اپنی بالادستی کو مستحکم کرنے کی ضرورت کی وجہ سے ایک کے بعد ایک امریکی انتظامیہ اسرائیل کو اپنا سب سے اہم اتحادی سمجھتی رہی ہے اور اسرائیل کو حاصل امریکی جانبداری اور ملی بھگت کو انتہا سے زیادہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسرائیل اقوام متحدہ میں فلسطین کے باضابطہ داخلے کی مخالفت کرتا آیا ہے اور امریکہ نے اس میں اپنا بھرپور تعاون پیش کیاہے۔ دوسری جانب امریکہ کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ فلسطین اسرائیل کے مسئلے پر کوئی بھی پیش رفت امریکی قیادت میں ہونی چاہیے اور اگر فلسطین یکطرفہ طور پر عالمی ادارے کی "رکنیت" کے لیے درخواست دیتا ہے تو اس سے فلسطین اسرائیل امن عمل میں امریکہ کا قائدانہ کردار کمزور ہو جائے گا۔
یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکہ کی نظر میں یہ اہم نہیں ہے کہ فلسطین اور اسرائیل امن حاصل کر سکتے ہیں یا نہیں، بلکہ یہ ضروری ہے کہ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا جائے۔ لیکن کیا فلسطینی عوام کے مستقبل اور تقدیر سے متعلق معاملات پر کسی کو ویٹو کا حق حاصل ہو نا چاہئے؟یقیناً نہیں ۔سو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ امریکی اقدامات، جو امن کے منافی ہیں، اس بات کی مزید تصدیق کرتے ہیں کہ امریکہ بین الاقوامی اور علاقائی معاملات میں "تخریب کار" ہے۔