بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے حال ہی میں متنبہ کیا ہے کہ امریکہ کا بھاری مالی خسارہ ، افراط زر میں اضافہ کررہا ہے اور عالمی معیشت کے لیے "اہم خطرہ" ہے۔
آئی ایم ایف کے اعدادو شمار کے مطابق گزشتہ سال امریکہ کو جی ڈی پی کے 8.8 فیصد خسارے کے ساتھ "بڑے پیمانے پر مالی مندی" کا سامنا کرنا پڑا ، جو 2022 کے مقابلے میں دوگنا سے زیادہ ہے ، جبکہ یورو زون جیسی ترقی یافتہ معیشتوں نے اپنے مالی خسارے کو کنٹرول میں رکھا اور ان کا اوسط مالی خسارہ صرف 2 فیصد تھا۔ امریکی وزارت خزانہ کی جانب سے گزشتہ سال 29 دسمبر کو جاری کردہ رپورٹ کے مطابق امریکی وفاقی حکومت کا قرضہ 34ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر گیا تھا۔ آئی ایم ایف کے چیف ماہر اقتصادیات پیئر اولیور گورانچا نے کہا کہ امریکہ کی مالی صورت حال بہت تشویش ناک ہے، جس سے افراط زر پر فیڈرل ریزرو کے ردعمل کو پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس سے عالمی معیشت کے طویل مدتی مالیاتی اور مالی خطرات میں اضافہ ہوگا۔
آئی ایم ایف نے نشاندہی کی ہے کہ چونکہ امریکی قرضوں کی لاگت عالمی منڈیوں سے قریبی طور پر منسلک ہے لہذا امریکی شرح سود میں "اچانک اور تیز اضافہ" عالمی حکومتی بانڈز کی شرح منافع میں تیز اضافے نیز ابھرتی ہوئی مارکیٹس اور ترقی پذیر معیشتوں میں شرح تبادلہ میں اتار چڑھاؤ کا باعث بنے گا۔ آئی ایم ایف کا ماننا ہے کہ عالمی سطح پر شرح سود میں اضافے سے سخت مالیاتی حالات پیدا ہوسکتے ہیں جس سے مختلف ممالک کے لیے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔ "