ایک عرصے سے کچھ مغربی سیاست دان نام نہاد "چین کی حد سے زیادہ پیداوار کے بیانیے" کو زور و شور سے پیش کر رہے ہیں، جن میں موجودہ امریکی وزیر خزانہ جینٹ یلین سب پر بازی لے گئی ہیں۔ چین کے اپنے حالیہ دورے سے پہلے اور بعد میں، یلین نے بارہا کہا کہ الیکٹرک گاڑیاں، بیٹریاں اور فوٹو وولٹک پینل جیسی چین کی نئی توانائی کی مصنوعات کی پیداوار "حد سے زیادہ " ہے، اور یہ کہ چینی حکومت کی جانب سے اس اضافی صلاحیت کو جذب کرنے کے لئے نام نہاد کم قیمتوں پر بیرون ملک ڈمپنگ نے مارکیٹ کو مسخ کردیا ہے اور دوسرے ممالک کی معیشتوں کو نقصان پہنچایا ہے۔
ییل یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کرنے والی جینٹ یلین یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، برکلے کے ہاس اسکول آف بزنس میں طویل عرصے تک پروفیسر رہی ہیں، جہاں انہوں نے دو بار اسکول کا بہترین تدریسی ایوارڈ بھی حاصل کیا۔ یلین امریکی فیڈرل ریزرو کی 100 سالہ تاریخ میں پہلی خاتون سربراہ اور امریکہ میں پہلی خاتون وزیر خزانہ بھی ہیں اور ان کے شوہر پروفیسر جارج اکرلوف کو 2001 میں معاشیات کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔ ایسی ماہر شخصیت کے الفاظ فطری طور پر دوسروں کو کافی الجھن کا شکار بنا سکتے ہیں۔ تاہم، یلین کا بیانیہ، علمی اور معاشی عمل دونوں لحاظ سے، مکمل طور پر غلط ہے،یہ نہ صرف معاشیات میں تقابلی برتری کے اصول کے منافی ہے ، بلکہ اسے بین الاقوامی علمی اور کاروباری حلقوں کی طرف سے بھی تسلیم نہیں کیا گیا ہے.
" حد سے زیادہ پیداوار" سے مراد صنعت کی پیداواری صلاحیت مارکیٹ کی طلب کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔لیکن اعداد و شمار اس دعوے کی حمایت نہیں کرتے کہ چین میں "حد سے زیادہ پیداوار"موجود ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے پیشگی حساب کے مطابق ، نئی توانائی کی گاڑیوں کی عالمی طلب 2030 تک 45 ملین تک پہنچ جائے گی ، جو 2022 کے مقابلے میں 4.5 گنا زیادہ ہے ، اور نئی پی وی صلاحیت کی عالمی طلب 820 گیگاواٹ تک پہنچ جائے گی ، جو 2022 کے مقابلے میں تقریباً چار گنا زیادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں، نئی توانائی کی مصنوعات کا موجودہ مسئلہ حد سے زیادہ پیداوار کا نہیں ہے، بلکہ مارکیٹ کی طلب کو پورا نہ کرنے کا ہے.
معاشی گلوبلائزیشن کے تناظر میں، رسد اور طلب عالمی رجحانات ہیں، اور مختلف ممالک کی اپنی مضبوط صنعتیں ہیں، جو لیبر کی بین الاقوامی تقسیم اور ہر ملک کی تقابلی برتریوں کے ذریعے طے کی جاتی ہیں. اگر چین کی "حد سے زیادہ پیداوار" کا اندازہ صرف چین کی نئی توانائی کی مصنوعات کی زیادہ پیداوار اور عالمی پیمانے پر اچھی فروخت کی بنیاد پر کیا جا سکتا تو اس منطق کے مطابق 80 فیصد امریکی چپس خاص طور پر ہائی اینڈ چپس برآمد کے لیے استعمال ہوتی ہیں اور امریکہ کا گوشت، زرعی مصنوعات اور اسلحہ بھی بڑی مقدار میں بین الاقوامی مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے۔تو کیا اس صورت حال کو "حد سے زیادہ پیداوار" بھی کہا جا سکتا ہے؟
کیا چین نے اپنی نئی توانائی کی مصنوعات بیرون ملک ڈمپ کی ہیں؟ اس کا جواب نہیں ہے. ڈمپنگ کسی مصنوعات کو اس کی عام قیمت سے بہت کم معیار پر کسی دوسرے ملک کو برآمد کرنے کا عمل ہے۔ مثال کے طور پر ، چین کی نئی توانائی کی گاڑیوں کی بیرون ملک قیمت نہ صرف چین کی ملکی قیمت سے زیادہ ہے ، بلکہ پیداوار میں چین کی نئی توانائی گاڑیوں کی برآمدات کا تناسب بھی جرمنی ، جاپان ، جنوبی کوریا سمیت دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ فوٹو وولٹک صنعت کو ایک اور مثال کے طور پر لیجئے ، چین نے 2018 کے اوائل میں تمام نئے پاور اسٹیشنوں کے لئے ریاستی سطح کی فوٹو وولٹک ایل سی او ای سبسڈی پالیسی کو مکمل طور پر ترک کر دیا۔ درحقیقت، امریکی حکومت نے اگست 2022 میں انفلیشن ریڈکشن ایکٹ منظور کیا تھا جس کے تحت نیو انرجی گاڑیوں سمیت صاف توانائی کی صنعت کو ٹیکس مراعات اور سبسڈی میں تقریباً 369 بلین ڈالر فراہم کیے گئے۔ بلومبرگ کے کالم نگار ڈیوڈ فیکلنگ کا کہنا ہے کہ 'اگر آپ چینی کمپنیوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو سبسڈی پر انحصار کا کوئی ثبوت نہیں ملتا بلکہ جو آپ دیکھتے ہیں وہ ایک مسابقت سے بھری صنعت ہے۔
امریکہ میں سینٹر فار سائنو امریکن اسٹڈیز کے ماہر اقتصادیات سوراب گپتا نے چند روز قبل ایک انٹرویو میں نشاندہی کی تھی کہ چین کی نئی توانائی کی مصنوعات مضبوط جدت طرازی کی صلاحیتوں اور مارکیٹ مسابقت کے ساتھ دنیا میں صف اول کی پوزیشن میں ہیں، اور "حقیقی تقابلی اور مسابقتی برتریاں رکھتی ہیں۔ ایسوسی ایشن آف برٹش موٹر مینوفیکچررز اینڈ ٹریڈرز کے چیف ایگزیکٹو مائیک ہوز نے کہا کہ برطانیہ میں مزید چینی نیوانرجی گاڑیوں کے داخلے سے نہ صرف الیکٹرک گاڑیوں کی قیمت کم ہوگی بلکہ صنعت میں جدت طرازی کو بھی فروغ ملے گا جس سے صارفین اور آٹوموٹو انڈسٹری دونوں کو فائدہ ہوگا۔ چند روز قبل بلومبرگ کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ زیادہ تر چینی نئی توانائی کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت کے استعمال کی شرح بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معیارات کے اندر ہے۔ امریکہ سمیت دیگر مغربی ممالک کو درپیش مسئلہ یہ ہے کہ ان کے کاروباری ادارے چینی کمپنیوں کی طرح موثر نہیں ہیں ، یہ نہیں کہ چین میں "حد سے زیادہ پیداوار" ہے۔
جہاں تک مارکیٹ کے ردعمل اور پرائمری اکنامکس کے اصولوں کا تعلق ہے، مادام یلین، جو ایک ماہر معاشیات ہوا کرتی تھیں، شاید اسے سمجھ تو سکتی ہیں، لیکن ان کا منصوبہ کچھ اور ہوگا ۔ یلین، جو اب ایک سیاست دان ہیں، اس وقت "چین کی حد سے زیادہ پیداوار کے بیانیے" کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے اپنے انتخاب کے پیچھے بس اپنا ہی حساب کتاب رکھتی ہیں: نہ صرف "امریکی انتخابی سال" میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے ڈیموکریٹک پارٹی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے، بلکہ امریکہ میں مختلف تحفظ پسند اقدامات کو "معقول" بنانے کے لئے بھی۔ مارکیٹ کو مسخ کرنے والی تحفظ پسندی امریکہ کی اس تشویش کی عکاسی کرتی ہے کہ آیا وہ چین کے ساتھ مقابلے میں "جیت" سکتا ہے۔ لیکن طویل عرصے سے علمی اور تجارتی مشقوں میں یہ واضح ہو چکا ہے کہ تحفظ پسندی مسابقت کے مسئلے کو حل کرنے سے قاصر ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ سیاسی حساب کتاب بنیادی مسئلے کا علاج نہیں بن سکتا، بلکہ علم کی آڑ میں اپنی اس فطرت کو بھی تبدیل نہیں کرسکتا کہ وہ معاشی قوانین سے متصادم ہے. ساتھ ہی ساتھ دوڑ میں دوسروں کی تیزرفتاری کے بارے میں شکایت کرنے سے اپنی رفتار کو بہتر نہیں بنایا جا سکتا ہے۔