26 تاریخ کو چین کے صدر شی جن پھنگ نے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ دونوں ممالک کو شراکت دار ہونا چاہیے، نہ کہ دشمن، فریقین کو ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے بجائے ایک دوسرے کو کامیاب بنانا چاہیے، سخت مسابقت کے بجائے اختلافات کو پس پشت ڈالتے ہوئے یکسانیت کی جستجو چاہیے، اور یہ کہ قول و فعل میں تضاد کے بجائے اپنے وعدے پر قائم رہنا چاہیے ۔ جہاں تک چین امریکہ تعلقات کا تعلق ہے، تزویراتی تصور، یعنی چین اور امریکہ کو شراکت دار ہونا چاہیے یا مخالف، ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ اگر امریکہ چین کو تعاون کا شراکت دار سمجھتا ہے تو اس سے دونوں فریقوں کو فائدہ ہوگا اور دنیا کو زیادہ استحکام اور اعتماد حاصل ہوگا؛ اگر امریکہ ہمیشہ چین کو اپنا اہم حریف سمجھتا ہے تو دوطرفہ تعلقات پریشان کن اور مسائل سے بھرے رہیں گے۔
چین کو محدود کرنے یا دبانے کے بجائے امریکہ کو چین کے ساتھ تعاون کرنے کی ضرورت ہے۔ اس بات کا ادراک لازم ہے کہ امریکہ میں کچھ لوگ زیرو سم کی ذہنیت رکھتے ہوئے غلطی سے چین کو "سب سے بڑا اسٹریٹجک حریف" سمجھتے ہیں، اور چین کے ترقیاتی عزائم کا تزویراتی غلط اندازہ لگاتے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ حالیہ ٹیلیفونک گفتگو میں صدر شی جن پھنگ نے اس بات پر زور دیا کہ تزویراتی تاثر کا مسئلہ ہمیشہ چین امریکہ تعلقات میں "پہلا بٹن" ہوتا ہے ۔ بلنکن کے دورے کے دوران چین نے ایک بار پھر امریکہ پر زور دیا کہ وہ بنیادی طور پر چین امریکہ تعلقات کی پوزیشن کے بارے میں سوچے اور مطالبہ کیا گیا کہ امریکہ تائیوان کو مسلح کرنا بند کرے، اور چینی عوام کے ترقیاتی حق پر زور دیا گیا۔ اگر امریکہ واقعی چین امریکہ تعلقات کو ذمہ داری کے ساتھ سنبھالنا چاہتا ہے اور یہ مانتاہے کہ ایک ترقی پزیر اور کامیاب چین دنیا کے لئے اچھی بات ہے"، تو اسے ان الفاظ کو سنتے ہوئے عملی جامہ پہنانا چاہئے۔
اس وقت چین امریکہ تعلقات میں استحکام کا رجحان آسانی سے نہیں آیا ہے اور دونوں ممالک کے تمام حلقوں بلکہ بین الاقوامی برادری نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔ جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے، چین کے بارے میں اسے اپنی غلط فہمی کو درست کرنے اور چین کی ترقی کے بارے میں صحیح نقطہ نظر اپنانا چاہیے ، یہ ہمیشہ سے "پہلا بٹن" رہا ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔