امریکی یونیورسٹیوں میں ہونے والے مظاہرے دنیا کو کیا بتاتے ہیں؟

2024/04/29 11:22:30
شیئر:

18 اپریل سے امریکی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلباء کی جانب سے فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مظاہروں نے  شدت اختیار کر لی ہے ۔ یہ مظاہرے امریکہ کی معروف یونیورسٹی کولمبیا یونیورسٹی سے شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ  ہارورڈ اور ییل یونیورسٹی سمیت آئیوی لیگ یونیورسٹیوں  کے ساتھ ساتھ امریکہ کی مختلف ریاستوں کی یونیورسٹیوں تک پھیل گئے، جن میں امریکہ بھر کی کم از کم 50 یونیورسٹیوں نے شرکت کی۔ طالب علموں کا مطالبہ ہے کہ غزہ کی پٹی میں مستقل جنگ بندی کی جائے،  اسرائیل کو امریکی فوجی امداد بند کی جائیں اور ان کی یونیورسٹیوں سے  ایسےتحقیقی پروگراموں کے لیے  فنڈنگ ختم کی جائے  جو اسرائیل کی جنگی کوششوں میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں ۔

اس کے ساتھ ہی اسی طرح کے مظاہرے تیزی سے بیرون ملک پھیل گئے۔کینیڈا کی میک گل یونیورسٹی اور کونکورڈیا یونیورسٹی، برطانیہ میں یونیورسٹی کالج لندن اور ایڈنبرا یونیورسٹی، آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف سڈنی اور یونیورسٹی آف میلبورن اور فرانس کے شہر پیرس میں  سائنس پو جیسی یونیورسٹیوں میں بھی اسی طرح کے مظاہرے  ہوئے۔ یو ایس اے ٹوڈے کی اطلاع کے مطابق لندن سے جنیوا تک یورپ بھر میں یونیورسٹی کیمپس میں اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کی حمایت میں کئی مظاہرے ہو رہے ہیں۔

کولمبیا یونیورسٹی میں مظاہرہ ایک پرانی روایت ہے۔ اپریل 1968 میں ویتنام جنگ کے خلاف کولمبیا کے طالب علموں کے بڑے پیمانے پر احتجاج نے امریکہ بھر کی یونیورسٹیوں میں احتجاج کی  لہر کو جنم دیا ، جس نے امریکی معاشرے کی جنگ مخالف آواز کو عروج پر پہنچا دیا ، اور آخر کار اس وقت کے امریکی صدر لنڈن جانسن نے صدارتی انتخابات سے دستبردار کرنے کا اعلان کیا۔ شاید یہی وہ چیز ہے جو براہ راست امریکی سیاسی حلقوں کی دردناک یادوں کو بیدار کرتی ہے۔

یونیورسٹی کے طلباء اور فیکلٹی ممبرز  کے پرامن اجتماعات کے سامنے ، امریکی حکومت ، جس نے ہمیشہ اظہار رائے کی آزادی کا پرچار کیا ہے ، نے غیر متوقع طور پر کریک ڈاؤن کیا اور سیکڑوں طلباء اور  فیکلٹی  ممبرز  کو گرفتار کرلیا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کولمبیا کی ایک خاتون پروفیسر کو زمین پر پھینکا  گیا اور انہیں ہتھکڑیاں لگا کر لے جایا گیا اور امریکی پولیس نے متعدد یونیورسٹیوں میں مظاہرین کو بھگانے کے لیے ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کا استعمال کیا اور پولیس کی جانب سے طلبا، پروفیسرز اور یہاں تک کہ میڈیا رپورٹرز کے ساتھ وحشیانہ سلوک کی تصاویر امریکہ میں مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں۔ امریکی کانگریس کے اسپیکر مائیک جانسن نے جنگ مخالف مظاہروں کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے کے لیے خود  کولمبیا یونیورسٹی کا دورہ کیا ، نیشنل گارڈ کو بھیجنے  کی دھمکی دی اور مظاہرین کو 'یہود مخالف' قرار دے دیا ۔

امریکہ میں "یہود مخالف" انتہائی حساس لفظ ہے، اور یہ اسرائیل کے لئے بھی مستقل تشویش کا باعث ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے امریکی طالب علموں کو 'ٹھگ' قرار دیتے ہوئے برہمی کا اظہار کیا ہے۔ انٹیلی جنس ایجنسی موساد نے مظاہروں میں شریک طلبہ کو ان کی ڈگریوں اور ملازمتوں سے محروم کرنے کی براہ راست دھمکی بھی دی۔ سی این این اور فاکس نیوز سمیت امریکہ کے مین اسٹریم میڈیا نے احتجاج کرنے والے طلباء کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کی حمایت کا اظہار کیا ۔ لوگ یہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکتے کہ امریکی آئین میں پہلی ترمیم کہاں ہے ؟ آزادی اظہار اور انسانی حقوق کا تحفظ کہاں ہے؟

مخالفت کی آواز بھی ہے. کولمبیا یونیورسٹی کے بورڈ آف ٹرسٹیز نے 26 تاریخ کو ایک قرارداد منظور کی ، جس میں طلباء کے احتجاج کو دبانے پر یونیورسٹی کی انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا کہ یہ عمل "آئیوی لیگ یونیورسٹیوں کے اصولوں اور روایات کی خلاف ورزی کرتا ہے"۔ امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے سینر رکن سینیٹر سینڈرز نے حال ہی میں غزہ میں اسرائیلی فوجی آپریشن کو انتہا پسند اور نسل پرستانہ قرار دیتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر  لفظی گولہ باری کی ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کے کیمپس میں ہونے والے مظاہرے "یہود مخالف" نہیں تھے بلکہ ان کا مقصد اسرائیلی افواج کے ہاتھوں بے گناہ لوگوں کا اندھا دھند قتل تھا۔ غزہ میں ہونے والی 30 ہزار سے زائد ہلاکتوں اور80 ہزار سے زائد زخمی ہونے والے فلسطینیوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔ سینیٹر سینڈرز نے اسرائیلی وزیر اعظم کو متنبہ کیا کہ وہ امریکیوں کی انٹیلی جنس کی توہین نہ کریں اور یہود مخالف ٹوپیاں پہنا کر امریکی  طالب علموں کی توہین بند کریں۔

دوسری جانب، احتجاج کرنے والے طلباء کا منظم انداز امریکی سیاست دانوں کے لئے ایک بہانہ فراہم کرتا ہے جو "الزام تراشی" بیان بازی کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ کانگریس کے ریپبلکن رکن کارلوس گیمنز نے نیوز ویک کے ساتھ ایک حالیہ انٹرویو میں کہا کہ چین امریکی کالج کیمپس میں مظاہروں کی حمایت کر رہا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ اس کی تصدیق کر سکتے ہیں تو وہ کوئی واضح جواب دینے سے قاصر تھے۔ادھر امریکی کانگریس کی سابق اسپیکر نینسی پلوسی نے ان دنوں یہ دعویٰ کیا  کہ یہ روس ہی ہے، جو  فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی میں امریکی طالب علموں کی حمایت کر رہا ہے۔ اس پر روسی وزارت خارجہ کے ترجمان نے جواب دیا کہ 'اسے صرف امریکیوں اور جمہوریت کی توہین کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔'

امریکی  یونیورسٹیوں میں مظاہرے اب بھی جاری ہیں۔ دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ آزادی اظہار، انسانی حقوق اور اخلاقی انصاف پر ہمیشہ فخر کرنے والا امریکہ اب کمزور اور غیر پراعتماد ہے۔ انسانی فطرت کی بیداری اور سیاسی حساب کتاب کے درمیان مقابلے میں امریکی معاشرہ زیادہ تقسیم  بن گیا ہے۔ اساتذہ اور طلباء کے مظاہرے  سادہ انسانی شعور سے ہوئےتھے۔ اگر زبردستی کےساتھ چین سے منسلک کرنا ہے تو وہ یہ ہے کہ چین ہمیشہ امن اور انصاف کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ یہ نہ صرف چین کا انتخاب ہے بلکہ بین الاقوامی برادری  کی بھاری اکثریت کا اتفاق رائے بھی ہے جس کی عکاسی نہ صرف 25 مارچ کو منظور کی گئی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2728 میں ہوتی ہے بلکہ جنوبی افریقہ کی جانب سے اسرائیل پر 'نسل کشی' کے الزامات پر عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں بھی نظر آتی ہے۔

راستبازوں کے لئے مدد زیادہ جبکہ ظالموں کے لئے مدد  کم ملتی ہے. امریکہ اور اسرائیل انسانی معاشرے کے مخالف نہ بنیں۔ اپنے عوام سمیت عالمی برادری کی آواز  پر توجہ دیں ، فوری طور پر جنگ بندی کریں، فلسطینی عوام کے حقوق کا احترام کریں کیونکہ  مشترکہ طور پر بین الاقوامی انصاف اور عالمی امن کو برقرار رکھنا  ہی  انسانیت کے لیے صحیح راستہ ہے۔