10 مئی کو امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائیوں کے جائزے پر ایک رپورٹ جاری کی۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ کا ماننا ہے کہ شاید اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں بین الاقوامی انسانی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے لیکن اس بارے میں کوئی واضح نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ رپورٹ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو مخصوص امریکی ہتھیاروں سے جوڑنے سے گریز کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں اسرائیل کو فوجی امداد جاری رکھنے کی گنجائش باقی رہے۔
رپورٹ جاری ہونے کے بعد اس پر امریکہ میں بڑے پیمانے پر تنقید کی گئی ۔ 'سینٹر فار دی اسٹڈی آف امریکن پروگریس' کے چیئرمین گیسپرڈ نے رپورٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی پٹی میں جو کچھ ہوا اسے دیکھنے کے بعد بھی امریکی حکومت اس نتیجے پر نہیں پہنچی کہ اسرائیل نے امریکی ہتھیاروں کے استعمال کی شرائط کی خلاف ورزی کی ہے اور امریکی حکومت کے اقدامات ناقابل یقین ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے بیورو آف پولیٹیکل اینڈ ملٹری افیئرز کے سابق ڈائریکٹر ، جوش پال کے مطابق یہ ایک متضاد رپورٹ ہے جس کے بہت سے پہلو ایسے ہیں جو خود اپنے ہی بیانات کی نفی کرتے ہیں اور ثابت شدہ حقائق سے منطقی نتائج اخذ نہیں کیے گئے ہیں۔
غزہ کی پٹی کے جنوبی شہر رفح پر حملے کے معاملے پر حالیہ دنوں میں امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اختلافات سامنے آنا شروع ہو ئےہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ اسرائیل کو دی جانے والی فوجی امداد روک دی جائے گی۔ تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکہ کی جانب سے اسرائیل کو اسلحے کی فراہمی کی معطلی صرف ایک عارضی اقدام ہے جس کا مقصد امریکی حکومت پر ملکی اور بین الاقوامی رائے عامہ کا دباؤ کم کرنا ہے۔