امریکہ میں انسانی حقوق کی صورت حال 2023 سے مسلسل خراب ہوتی جا رہی ہے۔ ملک میں انسانی حقوق تیزی سے پولرائزڈ ہوتے جا رہے ہیں۔ عام لوگوں کی اکثریت تیزی سے پسماندگی کی جانب مائل ہے اور سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر غالب اقلیت کے مقابلے میں ان کے بنیادی حقوق اور آزادیاں ختم ہو رہی ہیں۔ 76 فیصد امریکیوں کا خیال ہے کہ ان کا ملک غلط راستے پر چل رہا ہے۔
امریکہ میں، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں، حکومت نااہل ہے، اور حکمرانی غیر موثر ہے، اور شہری اور سیاسی حقوق کی مؤثر طریقے سے ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے. دونوں جماعتوں کے لیے اسلحے پر قابو پانے کے حوالے سے اتفاق رائے تک پہنچنا مشکل ہے اور بڑے پیمانے پر فائرنگ کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، جس میں تقریباً 43 ہزار افراد ہلاک ہوئے، یعنیٰ یومیہ اوسطاً 117 ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ 2023 میں پولیس تشدد کے باعث کم از کم 1,247 افراد ہلاک ہوئے، جو 2013 کے بعد سے سب سے زیادہ تعداد ہے، لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے احتساب کا نظام عملی طور پر موجود نہیں ہے. دنیا کی 5 فیصد سے بھی کم آبادی اور دنیا کے 25 فیصد قیدیوں کے ساتھ، امریکہ ایک حقیقی "قید خانہ ریاست" ہے. سیاسی جماعتوں میں شدید لڑائی جاری ہے، انتخابات میں مداخلت کے لیے انتخابی حلقوں کی تقسیم کا استعمال جاری ہے، ایوان نمائندگان میں دو بار "اسپیکر کے مشکل انتخاب" کا تماشہ سامنے آیا ، حکومت کی ساکھ مسلسل کمزور ہوتی جا رہی ہے، اور امریکی عوام کی وفاقی حکومت پر اعتماد کی شرح صرف 16 فیصد ہے۔
نسل پرستی کی جڑیں امریکہ میں بہت گہری ہیں، اور نسلی امتیاز سنگین ہے. اقوام متحدہ کے ماہر ین کا کہنا کہ افریقی النسل لوگوں کے خلاف منظم نسل پرستی امریکی پولیس فورس اور فوجداری انصاف کے نظام میں جڑیں پکڑ چکی ہے۔ صحت کی خدمات میں شدید نسلی امتیاز کی وجہ سے ، افریقی نژاد خواتین میں زچگی کی شرح اموات سفید فام خواتین کے مقابلے میں تقریبا تین گنا زیادہ ہے۔ تقریباً 60 فیصد ایشیائی باشندوں کا کہنا ہے کہ انہیں نسلی امتیاز کا سامنا ہے، اور چینی نژاد سائنس دانوں کے لیے" چائنا انیشی ایٹو " کے طویل منفی اثرات سامنے آ رہے ہیں۔ نسل پرستی کا نظریہ امریکہ میں سوشل میڈیا، میوزک اور گیمز جیسے متعدد پلیٹ فارمز تک پھیل چکا ہے اور ملک انتہائی نسل پرستی کا ایک بڑا برآمد کنندہ بن گیا ہے۔
امریکہ میں امیر اور غریب کے درمیان فرق شدت اختیار کر گیا ہے، "مزدوروں کی غربت" کا رجحان نمایاں ہو گیا ہے، اور معاشی اور سماجی حقوق کے تحفظ کا نظام کمزور پڑ رہا ہے۔ مزدوروں اور سرمایہ کاروں کے مابین دولت کی تقسیم میں دیرینہ تفاوت 1929 کے بڑے اقتصادی بحران کے بعد سے بلندترین سطح تک پہنچ چکی ہے۔ امریکہ میں 11.5 ملین کم آمدنی والے گھرانے ہیں ، اور 2009 کے بعد سے وفاقی سطح پر کم از کم فی گھنٹہ اجرت میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے ، اور 2023 میں فی ڈالر قوت خرید 2009 کی سطح کے 70 فیصد تک گر گئی ہے۔ کم آمدنی والے خاندان بنیادی ضروریات جیسے خوراک، کرایہ اور توانائی جیسے وسائل کی ادائیگی کے لئے لڑ رہے ہیں، اور 650000 سے زیادہ افراد بے گھر ہیں، جو 16 سال کی بلند ترین سطح ہے. "محنت کشوں کی غربت" نے محنتی طبقوں کے "امریکی خواب" کو چکنا چور کر دیا، جس کے نتیجے میں 2023 میں 21 ویں صدی کی وسیع ترین پیمانے پر ہڑتال کی لہر نے جنم لیا۔
امریکہ میں خواتین اور بچوں کے حقوق کی ایک طویل عرصے سے منظم طور پر خلاف ورزیاں جاری ہیں، اور صنفی مساوات کی ضمانت دینے والی آئینی دفعات کا بدستور فقدان ہے۔ ملک نے خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی توثیق نہیں کی ہے، اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں واحد ملک ہے جس نے بچوں کے حقوق کے کنونشن کی توثیق بھی نہیں کی ہے۔ اپریل 2023 میں، امریکی سینیٹ نے صنفی مساوات کے تحفظ کے لیے ایک مجوزہ آئینی ترمیم کو مسترد کر دیا۔ امریکہ میں ہر سال تقریباً 54,000 خواتین حمل سے متعلق امتیازی سلوک کی وجہ سے اپنی ملازمتوں سے محروم ہو جاتی ہیں۔ بچے پیدا کرنے کی عمر کی 2.2 ملین سے زیادہ خواتین کو زچگی کی دیکھ بھال تک رسائی نہیں ہے۔ کم از کم 21 ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی یا سختی پابندی عائد کرنے کے احکامات ہیں۔ گزشتہ 20 سالوں میں زچگی کی اموات کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ جنسی تشدد مختلف شعبوں جیسے کام کی جگہوں، اسکولوں اور خاندانوں میں ایک حقیقت ہے۔ بچوں کی بقا اور نشوونما کے حقوق تشویش ناک ہیں۔ بچوں کی بڑی تعداد کو پبلک ہیلتھ انشورنس پروگرام سے محروم کر دیا گیا ہے۔ گن وائلنس بچوں میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ نوجوانوں میں منشیات کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ 46 ریاستوں میں فاسٹر کیئر سے بچوں کے لاپتہ ہونے کے تقریباً 34,800 واقعات کو کم رپورٹ کیا گیا۔
امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس نے تاریخی اور حقیقی دونوں لحاظ سے تارکین وطن سے فائدہ اٹھایا ہے، لیکن ملک میں تارکین وطن کے خلاف اخراج اور امتیازی سلوک کے سنگین مسائل ہیں۔ 1882 کے بدنام زمانہ "چینی اخراج ایکٹ" سے لے کر 2017 کے "مسلم بین" تک جس کی عالمی برادری نے بڑے پیمانے پر مذمت کی ہے، تارکین وطن کے خلاف اخراج اور امتیازی سلوک کا عمل امریکی ادارہ جاتی ڈھانچے میں گہرائی سے سرایت کر چکا ہے۔ اس وقت، امیگریشن کا مسئلہ سیاسی جماعتوں کے لیے منافع حاصل کرنے اور مقابلہ کرنے کا ایک آلہ بن گیا ہے اور سیاست دانوں نے تارکین وطن کے انفرادی حقوق اور فلاح و بہبود کو نظرانداز کیا اور تارکین وطن کی پالیسی محض سیاسی جماعتوں کے منقسم موقف کی ایک عکاس بن چکی ہے کہ "اگر آپ متفق ہیں،میں ضرور مخالفت کروں گا"۔ اور بالآخر ووٹرز کا فائدہ اٹھانے کے لیے ایک سیاسی شو بن چکا ہے۔ تارکین وطن اور بچوں کو بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، انسانی اسمگلنگ اور استحصال اور دیگر ظالمانہ سلوک کا نشانہ بنانے کے ساتھ انہیں امیگریشن افراتفری جیسے ایک ناقابل حل شیطانی چکر میں ڈال دیا گیا ہے۔ امیگریشن کے معاملے پر سیاسی پولرائزیشن اور امریکی انسانی حقوق کی منافقانہ نوعیت سب سے زیادہ واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
امریکہ نے طویل عرصے سے تسلط پسندی کی پیروی کی ہے، طاقت کی سیاست کی ہے، اسلحہ کی طاقت اور یکطرفہ پابندیوں کا غلط استعمال کیا ہے۔ یہ دوسرے ممالک کو کلسٹر گولہ بارود اور دیگر ہتھیاروں کی فراہمی جاری رکھے ہوئے ہے، جس سے علاقائی کشیدگی اور علاقائی مسلح تنازعات میں اضافہ ہوتا ہے، اور بڑی تعداد میں شہری ہلاکتیں اور سنگین انسانی بحران پیدا ہوتے ہیں۔ امریکہ نے بے دریغ "غیر ملکی ایجنٹس" پر مبنی کارروائیاں کی ہیں، دوسرے ممالک میں سماجی استحکام کو نقصان پہنچایا ہے اور دوسرے ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ امریکہ اب بھی گوانتاناموبے جیل کو بند کرنے سے انکاری ہے۔