علی بابا گروپ چین ہی نہیں بلکہ دنیا کا بھی سب سے بااثر انٹرنیٹ گروپ ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس کے بانی جیک ما اپنے کاروبار کے آغاز میں جغرافیائی پابندیوں کے بغیر ایک بین الاقوامی کمپنی بنانا چاہتے تھے۔اس لیے وہ کمپنی کو ایک ایسا نام دینا چاہتے تھے جسے دنیا بھر کے تمام ممالک کے لوگ سمجھ سکیں۔ ایک بار امریکہ کے ایک ریستوران میں کھانا کھاتے ہوئے انہوں نے ویٹر کو بلا کر ان سے پوچھا کہ کیا وہ علی بابا کا نام جانتے ہیں۔ چین میں ہر کوئی عربی لوک کہانیوں کےمجموعہ " اَلف لیلۃ و لیلۃ" یعنی "ایک ہزار ایک رات" میں " علی بابا اور چالیس چور " کی کہانی سے واقف ہے ، اورتقریباً تیس سال پہلے راک گانا "علی بابا" چین میں سب سے زیادہ مقبول پاپ ہٹ تھا۔ جیک ما کے سوال کے جواب میں مزکورہ ویٹر نے کہا کہ وہ جانتا ہے، اور جیک ما کو یہ بھی بتایا کہ خزانے کو کھولنے کے لئے علی بابا کے جادوئی الفاظ "کھل جا سم سم" تھے۔ اس کے بعد جیک ما نے مختلف مقامات پر بار بار لوگوں سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ علی بابا کی کہانی دنیا بھر کے لوگوں کو اچھی طرح معلوم ہے اس لیے انہوں نے "علی بابا" کو اپنی کمپنی کے نام کے طور پر منتخب کیا۔
بعد میں یہ ثابت ہوا کہ علی بابا کا نام واقعی جیک ما اور ان کی کمپنی کے لئے خوش قسمتی لے کر آیا ، اور " کھل جا سم سم " کے منتر نے واقعی علی بابا کے لئے دولت کے خزانے کا دروازہ کھول دیا: جیک ما چین میں امیر ترین شخص بن گئے ، اور علی بابا گروپ چین اور یہاں تک کہ دنیا کی سب سے بڑی اور بااثر انٹرنیٹ کمپنیوں میں سے ایک بن گیا۔ نتیجتا، جیک ما عرب دنیا کے ساتھ تبادلوں اور تعاون کو بہت اہمیت دیتے ہیں: علی بابا کلاؤڈ بڑے پیمانے پر مشرق وسطی کی مارکیٹ میں داخل ہوا ، مشرق وسطی کی کمپنیوں میں بھاری سرمایہ کاری کی اور اقدامات کے ایک سلسلے نے چین-عرب تعاون میں ایک نیا باب رقم کیا ہے.
چین اور عرب کے دوستانہ تبادلوں کی تاریخ ہزاروں سال پر محیط ہیں، "قدیم شاہراہ ریشم کے ذریعے ایک دوسرے سے واقف ، قومی آزادی کی جدوجہد میں شانہ بشانہ کھڑے ، معاشی عالمگیریت کی لہر میں فائدہ مند تعاون پر اصرار ، بدلتی ہوئی بین الاقوامی صورتحال میں اخلاقیات کی پاسداری ، اور 'باہمی امداد، مساوات اور باہمی فائدے، رواداری اور باہمی سیکھ' ، چین-عرب دوستانہ جذبے کا نچوڑ" ہے۔ پہلے چین عرب ممالک کے سربراہ اجلاس کی افتتاحی تقریب میں چینی صدر شی جن پھنگ نے چین عرب دوستی کی داستان کو مزکورہ الفاظ میں واضح طور پر بیان کیا ۔ واقعی چین عرب دوستی اور تعاون کے لامتناہی خزانے کو کھول دیا گیا ہے، اور بھر پور نتائج حاصل کیے گئے ہیں جس نے دنیا بھر کی توجہ حاصل کی ہے۔ چین نے تمام 22 عرب ممالک اور عرب لیگ کے ساتھ مشترکہ طور پر "بیلٹ اینڈ روڈ" کی تعمیر کے تعاون کی دستاویزات پر دستخط کیے ہیں۔" بیلٹ اینڈ روڈ" کے فریم ورک کے تحت 200 سے زیادہ بڑے منصوبوں پر عمل درآمد کیا گیا ہے۔ چین کئی سالوں سے عرب ممالک کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ اپنے قیام کے بعد سے گزشتہ 20 سالوں میں چین عرب ممالک تعاون فورم نے 19 اہم میکانزم قائم کیے ہیں جن میں وزارتی کانفرنسز ، تزویراتی اور سیاسی مکالمے، اصلاحات اور ترقیاتی فورمز اور توانائی تعاون کانفرنسز شامل ہیں ۔اس فورم نے 85 اہم نتائج کی دستاویزات جاری کی ہیں جو ترقی پذیر ممالک کے درمیان اجتماعی تعاون کے لئے ایک معیار قائم کرتی ہیں. دسمبر 2022 میں صدر شی جن پھنگ نے عرب چین تعلقات کو مضبوط کرنے اور انہیں حمایت دینے کے لئے پہلے چین عرب سربراہ اجلاس میں چین اور عرب ریاستوں کے لئے عملی تعاون کے لئے "آٹھ بڑے مشترکہ اقدامات" کی تجویز پیش کی۔ دونوں فریق ایک دوسرے کے بنیادی مفادات سے متعلق امور پر ایک دوسرے کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔عرب ممالک نے ہمیشہ ایک چین کے اصول پر عمل کیا ہے اور عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کی کونسل نے چین کے ساتھ دوستی پر لگاتار 44 قراردادیں منظور کی ہیں۔ چین نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا اور شام کی عرب لیگ میں واپسی کی حمایت کی۔ عرب لیگ چین کے ساتھ مشترکہ طور پر ڈیٹا سیکیورٹی تعاون کے اقدام کو جاری کرنے ، عالمی تہذیبی اقدام کے نفاذ پر مشترکہ بیان جاری کرنے ، اور تھنک ٹینک اتحاد کی تشکیل پر تعاون کی دستاویز پر دستخط کرنے والی پہلی علاقائی تنظیم ہے۔ چین نے 13 عرب ممالک کے ساتھ تعاون کرکے 21 کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ اور 2 کنفیوشس کلاس رومز قائم کئے، اور متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، فلسطین ، مصر ، تیونس اور جبوتی نے سرکاری طور پر چینی زبان کی تعلیم کو اپنے قومی تعلیمی نظام میں شامل کیا ہے۔ سنہ 2022 میں ہونے والے پہلے چین عرب سربراہ اجلاس میں چین اور عرب ریاستوں نے نئے عہد میں چین عرب ہم نصیب معاشرے کی تشکیل کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے پر اتفاق کیا اور چین عرب تعلقات جامع اور گہری ترقی کے ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں.
2000 سال قبل قدیم شاہراہ ریشم پر روایتی دوستی سے لے کر گزشتہ صدی میں چین اور عرب لیگ کے رکن ممالک کے درمیان مسلسل جاری سفارتی تعلقات کے قیام سے،نئی صدی میں "بیلٹ اینڈ روڈ" کی مشترکہ تعمیر اور نئے عہد میں چین عرب ہم نصیب معاشرے کی تشکیل تک، چین عرب دوستی کا جذبہ ہمیشہ وقت کی چمک سے جگمگاتا رہا ہے۔ چین عرب ممالک تعاون فورم کی دسویں وزارتی کانفرنس 30 مئی کو بیجنگ میں منعقد ہوئی اور چینی صدر شی جن پھنگ نے کانفرنس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کرتے ہوئے ایک اہم تقریر کی۔ انہوں نے کہا کہ چین عرب فریق کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کی مدد کرنے اور چین عرب تعلقات کے معیار کو عالمی امن و استحکام کو برقرار رکھنے کی ایک مثال بنانے کے لئے تیار ہے۔
توقع ہے کہ چین اور عرب ریاستیں اس اجلاس کو بین الاقوامی نظام کی ترقی اور اس کے زیادہ منصفانہ سمت میں فروغ کے لئے مل کر کام جاری رکھنے اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان یکجہتی اور تعاون کا ایک ماڈل تخلیق کرنے کے موقع کے طور پر لیں گے۔ لوگوں کو بھی یقین ہے کہ " کھل جا سم سم " کا منتر ، چین عرب جامع تعاون پر مبنی اسٹریٹجک شراکت داری کی جادوئی طاقت کے طفیل ، مستقبل اور مشترکہ ترقی کے لئے چین عرب تعاون کے مزید خزانے کھولے گا۔