فلپائن کے صدر فرڈینینڈ مارکوس نے چند روز قبل 21 ویں شنگریلا ڈائیلاگ سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ سمندر کے قانون سے متعلق اقوام متحدہ کا کنونشن اور نام نہاد "جنوبی بحیرہ چین ثالثی" ایوارڈ دونوں فلپائن کے قانونی حقوق کو تسلیم کرتے ہیں اور فلپائن کی بحیرہ جنوبی چین کی پالیسی کا سنگ بنیاد ہیں۔ انہوں نے چین کو بھی سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور دھمکی دی کہ فلپائن علاقائی مسئلے پر پیچھے نہیں ہٹے گا۔
شنگریلا ڈائیلاگ سے اپنے خطاب میں مارکوس نے ایک سے زائد مواقع پر یو این سی ایل او ایس اور نام نہاد "جنوبی بحیرہ چین کی ثالثی" کا ذکر کیا۔ درحقیقت وہ انہیں سمندری مسائل پر اپنے غلط دعووں کو فروغ دینے، سمندر کی صورتحال کو مسخ کرنے اور اپنی غیر قانونی توسیع کے لئے بین الاقوامی قانون میں خود کو ڈھانپنے کے لئے ایک بنیاد کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
فلپائن کی علاقائی وسعت کا تعین بین الاقوامی معاہدوں کی ایک سیریز کے ذریعے کیا گیا تھا ۔ چین کے نان شا جزائر اور رن آئی ریف مذکورہ بالا معاہدوں میں طے شدہ فلپائنی علاقے کے دائرہ کار میں نہیں آتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ صدی کی 70 کی دہائی میں چین اور فلپائن کے درمیان سفارتی تعلقات کے قیام کے بعد سے بحیرہ جنوبی چین کے معاملے کے دوطرفہ تعلقات پر پڑنے والے اثرات کو عام طور پر ایک خاص حد کے اندر کنٹرول کیا گیا ہے۔ تاہم، 2022 میں مارکوس انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، فلپائن کے بحری جہاز اکثر چین کے پانیوں میں دراندازی کرتے رہے، جس کی وجہ سے چین اور فلپائن کے تعلقات مسلسل تنزلی کا شکار رہے۔
وسیع پیمانے پر یہ رائے بھی گردش میں ہے کہ مارکوس خاندان کی امریکہ میں چھپی ہوئی وسیع دولت فلپائن کی حکومت کو امریکہ کے تابع کرنے پر مجبور کرنے میں ایک اہم عنصر ہے۔ بحیرہ جنوبی چین میں فلپائن کی جانب سے چین مخالف اشتعال انگیزی فلپائن کے قومی مفاد میں نہیں بلکہ مارکوس کے ذاتی اور خاندانی مفادات کی خدمت کر سکتی ہے۔ فلپائن میں بہت سے لوگوں نے اس پر سوال اٹھایا ہے اور تنقید کی ہے۔ فلپائن کے سابق صدارتی ترجمان ریگوبرٹو ٹگراؤ نے کہا کہ "ہم اب امریکہ کی کٹھ پتلی ریاست ہیں" اور موجودہ حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ "چین کے ساتھ امن سے رہنا سیکھے۔"
فلپائنی صدر کے چین کے خلاف سخت بیانات کے پیچھے ایک دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ فلپائنی فریق جھوٹے بیانیے بنا کر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن بین الاقوامی برادری کو دھوکہ نہیں دے سکتا بلکہ صرف اس بات کی تصدیق کرے گا کہ وہ امریکی بالادستی کا آلہ کار اور علاقائی امن کو سبوتاژ کرنے والا ہے اور خود کو ایک خطرناک اور الگ تھلگ صورتحال میں دھکیل رہا ہے۔