13 جون کو یورپی کمیشن نے اعلان کیا کہ وہ چین سے درآمد کی جانے والی الیکٹرک گاڑیوں پر عارضی جوابی ڈیوٹی عائد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ۔ اس حوالے سے جرمن ووکس ویگن گروپ نے کہا کہ یورپ کو تحفظ پسندی کے بجائے آٹوموٹو صنعت کو برقی کاری کی طرف منتقلی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ نہ صرف ووکس ویگن بلکہ مرسڈیز بینز، بی ایم ڈبلیو سمیت دیگر یورپی کار کمپنیوں نے بھی فوری طور پر اپنی مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ محصولات کے نفاذ سے یورپی کار کمپنیوں کی ترقی میں رکاوٹ آئے گی اور یورپ کے اپنے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ یورپی یونین میں چینی چیمبر آف کامرس نے بھی ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ یورپی یونین کے تجارتی تحفظ پسند طرز عمل چین اور یورپی یونین کے مابین تجارتی تنازعات میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔
یورپی کار کمپنیوں کی اجتماعی مخالفت یہ ظاہر کرتی ہے کہ یورپی یونین کا فیصلہ یورپی کار کمپنیوں کی حفاظت کے لئے نہیں ہے ، بلکہ سیاسی کھیل ہے۔ایک امریکی مشاورتی کمپنی کے اعداد و شمار کے مطابق، یورپ میں چین کی الیکٹرک گاڑیوں کا مارکیٹ شیئر پچھلے سال 8 فیصد تھا. 2022 میں ، چینی مارکیٹ میں یورپی برانڈ الیکٹرک گاڑیوں کا شیئر 6فیصد تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہے۔ امریکہ میں جنروئی فنڈ کے ایک سینئر سرمایہ کاری تجزیہ کار انتھونی سیکسن نے نشاندہی کی کہ چینی آٹومیکرز کی کارکردگی زیادہ اچھی ہے اوران کا مارکیٹ میں مقام آگے ہے۔ یورپی یونین کے محصولات ان پر زیادہ اثر انداز نہیں ہوں گے، اور چینی کاریں اب بھی یورپی کاروں کے مقابلے میں زیادہ مسابقتی ہیں.
حقائق نے بارہا ثابت کیا ہے کہ محصولات مسابقت نہیں لاتے ہیں ، اور تجارتی جنگوں میں کوئی فاتح نہیں ہے۔ چین کی الیکٹرک گاڑیوں کی صنعت کی برتریاں صنعتی سبسڈی کے بجائے مکمل مسابقت کے ذریعے حاصل ہوئی ہیں۔ یورپی یونین کو تمام شعبوں سے معروضی اور معقول آوازوں کو غور سے سننا چاہئے، فوری طور پر اپنے غلط طریقوں کو درست کرکے اقتصادی اور تجارتی معاملات کو سیاسی رنگ دینے سے گریز کرنا چاہئے، اور بات چیت اور مشاورت کے ذریعے معاشی اور تجارتی تنازعات کو مناسب طریقے سے حل کرنا ہوگا. اگر یورپی یونین اپنے غلط راستے پر بضد رہی تو چین ڈبلیو ٹی او کے قوانین،مارکیٹ کے اصولوں اور چینی کاروباری اداروں کے جائز حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لئے ضروری اقدامات کرے گا۔