روس اور یوکرین کے درمیان تنازع بدستور جاری ہے، اور اس کے نتیجے میں جغرافیائی سیاسی بحران، اقتصادی اور تجارتی اثرات اور انسانی آفات میں شدت آتی جا رہی ہے۔ تاہم، امریکہ سمیت مغربی ممالک نے یوکرین کو ہتھیار بھیجنے اور حالات کو بھڑکانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
حال ہی میں، معروف امریکی ماہر اقتصادیات اور کولمبیا یونیورسٹی کے پروفیسر جیفری ساکس اور سربیا کے رکن پارلیمنٹ الیگزینڈر پاوچ نے بالترتیب اپنے انٹرویوز میں کہا کہ امریکہ اور مغرب روس کو کمزور کرنے کے لیے یوکرین کو آلہ کے طورپر استعمال کر رہے ہیں، اور یوکرین کے عوام اس تنازع کے سب سے بڑے متاثرین ہیں۔
جیفری ساکس نے رشیا ٹوڈے ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ روس اور یوکرین کے درمیان تنازع کی ایک بڑی وجہ نیٹو کی توسیع ہے جسے مغربی ممالک کئی سالوں سے فروغ دے رہے ہیں۔ روس-یوکرین تنازع کے ابتدائی مراحل میں، مارچ 2022 میں، روس اور یوکرین کے وزرائے خارجہ کے درمیان امن مذاکرات ایک معاہدے تک پہنچنے کے قریب تھے۔ تاہم، امریکہ اور برطانیہ کی مداخلت نے متعلقہ کوششوں کو بے سود کر دیا۔ اس سلسلے میں، ساکس نے نشاندہی کی کہ جی سیون، خاص طور پر امریکہ کا رویہ، "بہت متکبرانہ ہے" اور اس کا خیال ہے کہ وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں۔ امریکہ کو امید ہے کہ یوکرین اس وقت تک جنگ جاری رکھے گا جب تک کہ وہاں صرف آخری یوکرینی باقی نہ رہ جائے۔
سربیا کے رکن پارلیمنٹ الیگزینڈر پاوچ نے بھی کہا کہ امریکہ اور مغرب رائے عامہ کا استعمال کرتے ہوئے روس کو مسلسل بدنام کرتے رہے اور روس یوکرین امن مذاکرات کو نقصان پہنچاتے رہے ہیں جس کا مقصد یوکرین کے ذریعے روس کو مسلسل کمزور کرنا ہے۔