حال ہی میں ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیر محمد نے ایک انٹرویو میں جنوب مشرقی ایشیا میں امریکہ کے کردار پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ بحیرہ جنوبی چین میں کوئی فریق ملک نہیں ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ ممالک کے درمیان محاذ آرائی کو بھڑکانے اور یہاں تک کہ انہیں جنگ کی جانب لے جانے کا شوقین ہے، جیسا کہ یوکرین اور روس کے درمیان ہوا ہے۔ کیونکہ ایک بار جب جنگ چھڑ جاتی ہے تو امریکہ بیرونی دنیا کو بہت سارے ہتھیار فراہم کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ کئی سابق امریکی عہدیداروں نے جرمن تھنک ٹینک شیلر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے منعقدہ ایک حالیہ پریس کانفرنس میں نشاندہی کی کہ امریکہ دراصل فلپائن کو چین کے ساتھ ممکنہ تنازع کے حالات پیدا کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ فلپائن امریکہ کا دوست نہیں بلکہ صرف امریکہ کا آلہ کار ہے۔
اس صدی کے آغاز میں چین اور فلپائن کے تعلقات نے ایک "سنہری دہائی" کا آغاز کیا اور اس کے نتیجے میں امریکہ میں تشویش پیدا ہوئی۔ سنہ 2009 اور 2012 میں اوباما انتظامیہ نے چین کو ہدف بناتے ہوئے "ایشیا بحرالکاہل محور" اور "ایشیا بحرالکاہل میں دوبارہ توازن قائم کرنے" کی حکمت عملی پیش کی تھی۔ سنہ 2010 میں اکینو سوم کے اقتدار سنبھالنے کے بعد چین اور فلپائن کے تعلقات تنزلی کا شکار ہو گئے اور اس کی بنیادی وجہ امریکہ کے اکسانے پر دونوں ممالک کے درمیان سمندری تنازعہ تھا۔
اگر اوباما کی ایشیا بحرالکاہل کی پالیسی نے امریکہ اور چین کے درمیان مسابقت کا آغاز کیا ہے، تو پچھلی دو امریکی انتظامیہ نے چین کے ساتھ ایک مکمل تزویراتی مقابلہ شروع کیا ہے۔ خاص طور پر بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد، اس نے چین سے نمٹنے کے لئے ہر جگہ اتحادیوں کو اکٹھا کیا ہے۔ امریکہ نے بحیرہ جنوبی چین کے معاملے پر کھلم کھلا موقف اختیار کیا ہے اور فلپائن کے ساتھ اپنی سلامتی کی وابستگی کا بار بار اظہار کیا ہے، فلپائن کو چین کے ساتھ محاذ آرائی میں سب سے آگے دھکیل دیا ہے۔