غذائی تحفظ میں چین کا مضبوط کردار

2024/07/03 11:20:35
شیئر:

یونیسکو نے یکم جولائی کو خبردار کیا تھا کہ 2050 تک دنیا کی 90 فیصد زمین زراعت کے لئے ناکارہ  ہو سکتی ہے۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن اور ورلڈ فوڈ پروگرام کی جانب سے مشترکہ طور پر جاری کردہ ایک رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کہ اگلے چھ ماہ میں سوڈان،مالی اور غزہ سمیت 21 ممالک اور خطوں میں غذائی عدم تحفظ مزید بڑھ جائے گا۔ادھراقوام متحدہ کی جانب سے جاری ایک اور رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ایشیا پیسیفک خطے کو بھی غذائی تحفظ کے سنگین مسائل کا سامنا ہے، جہاں 370 ملین سے زیادہ لوگ غذائی قلت کا شکار ہیں، یہ خطہ دنیا کی تقریباً نصف آبادی پر مشتمل ہے۔جنوبی ایشیا میں غذائی قلت کی شرح   15.6 فیصد  رہی جو سب سے بلند ہے۔ مذکورہ رپورٹس میں واضح کیا گیا ہے کہ غذائی تحفظ کو زمین کی کوالٹی کی تنزلی کے ساتھ ساتھ  پرتشدد تنازعات جیسے دیگر مسائل کا سامنا ہے  اور ان سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔چین نے طویل عرصے سے مسلسل کوششوں کے ذریعے  1.4 بلین سے زائد لوگوں کو کامیابی کے ساتھ خوراک فراہم  کی ہے جو عالمی غذائی تحفظ کے لیے ایک مثبت خدمت ہے۔

پچھلے 70 سے زائد سالوں میں، چینی عوام کی خوراک "کھانے کے لیے ناکافی ہونے" سے " کافی ہونے" تک، اور پھر " غذائیت سے بھرپور ہونے " تک ایک  تاریخی تبدیلی سے گزری ہے، جو  عالمی سطح پر بھی ایک نمایاں  کامیابی ہے اور اس دوران بہت سے نظریاتی اور عملی تجربات حاصل ہوئے ہیں۔قوانین کے شعبے میں، "عوامی جمہوریہ چین کا غذائی تحفظ کا قانون" 1 جون 2024 سے نافذ العمل ہوا، جو چین کے غذائی تحفظ کو مزید مضبوط بنانے کے لیے ادارہ جاتی ضمانتیں فراہم کرے گا۔ٹھوس اقدامات کے شعبے میں چین اس بات پر زور دیتا ہے کہ "خوراک کو  اچھی زمین اور ٹیکنالوجی کے ذریعے  ذخیرہ کیا جاتا ہے"۔ زراعت میں زمین کا پائیدار استعمال اور  ٹیکنالوجی کا سہارا لیتے ہوئے غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ نظریاتی سطح پر چینی  صدر شی جن پھنگ نے خوراک کی متنوع فراہمی پر زور دیتے ہوئے " جامع غذائی تصور" پیش کیا۔اس تصور نے یہ نشاندہی کی ہے کہ نہ صرف کھیتوں بلکہ گھاس کے میدانوں، جنگلات اور سمندروں سے بھی خوراک پیدا ہو سکتی ہے۔ماضی میں غذائی تحفظ صرف اناج تک محدود رہا اور اس دوران جھیلوں ، سمندروں، پہاڑوں  اور جنگلات وغیرہ سب کو   کھیتی باڑی کے لیے کھیتوں میں تبدیل کیا جاتا رہا اور اس سے حیاتیاتی ماحول کو بڑا نقصان پہنچا ۔"جامع غذائی تصور" واضح طور پر بتاتا ہے کہ جھیلوں اور سمندروں میں موجود آبی مصنوعات، پہاڑوں اور جنگلات میں جنگلی مصنوعات وغیرہ بھی لوگوں کو  غذائیت فراہم کر سکتی ہیں۔یہ تصور زمین کی تنزلی اور غذائیت کی کمی جیسے مسائل کے حل میں بہت مددگار ہے۔

اس وقت عالمی خوراک کی پیداوار بیشتر ممالک کی ضروریات کو پورا کر سکتی ہے ، لیکن دنیا میں تقریباً 800 ملین لوگ اب بھی بھوک کا شکار ہیں۔ اس حوالے سے اقوام متحدہ کی متعلقہ رپورٹس بتاتی ہیں کہ تشدد اور تنازعات، قدرتی آفات اور معاشی خطرات  دنیا بھر میں غذائی عدم تحفظ کی بنیادی وجوہات ہیں۔ غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ان مسائل کو جڑ سے حل کرنا ضروری ہے۔ اس تناظر میں چین نے گلوبل ڈویلپمنٹ انیشی ایٹو، گلوبل سیکورٹی انیشی ایٹو اور گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو پیش کیے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کی وکالت کی۔ کیونکہ مشترکہ ترقی، سلامتی اور استحکام کی تکمیل پسماندہ علاقوں کے لوگوں کے لیے غذائی تحفظ  حاصل کرنے کی پیشگی شرط ہے، مختلف ثقافتوں کے درمیان مکالمہ تنازعات کی کمی کے لیے لازم ہے، اور انسانوں کے  ہم نصیب معاشرے کی تعمیر سے ہی بھوک  اور غربت سے پاک  مشترکہ خوشحالی کی ہم آہنگ دنیا تشکیل دی جا سکتی ہے۔

اپنی ترقی کے ساتھ ساتھ چینی حکومت نے غذائی تحفظ کے لیے مختلف امداد ی منصوبوں کے ذریعے ترقی پذیر ممالک کی مدد بھی کی ہے اور غذائی تحفظ سے متعلق ڈبلیو ٹی او کی اپیل کا جواب دیتے ہوئے  عالمی فوڈ سیکیورٹی گورننس میں ایک ذمہ دار بڑے ملک کا کردار ادا کیا ہے۔