"توسیع شدہ ڈیٹرنس" کو مضبوط کرنا، جاپان-امریکی فوجی اتحاد کو اپ گریڈ کرنا... جاپان کے حالیہ سلسلہ وار اقدامات نے علاقائی ممالک کے درمیان انتہائی تشویش کو جنم دیا ہے۔ بہت سے جاپانی شہریوں نے احتجاج کیا ہے کہ جاپانی حکومت کے اقدامات "جنگ کی طرف بڑھنے" کے غلط راستے پر اسے مزید آگے لے جارہے ہیں ۔
نام نہاد "توسیع شدہ ڈیٹرنس" سرد جنگ کی پیداوار ہے اور اپنے اتحادیوں کے تحفظ کے لیے جوہری ہتھیاروں سمیت فوجی طاقت کے استعمال کے لیے امریکہ کے عزم کا حوالہ دیتا ہے۔ حال ہی میں منعقد ہونے والے پہلے "توسیع شدہ ڈیٹرنس" وزارتی اجلاس میں، جاپان اور امریکہ نے امریکہ کی "جوہری چھتری" کے اشتراک کی اہمیت کی تصدیق کی۔ بیرونی دنیا کی نظروں میں، جاپان کا یہ اقدام جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے تحت جوہری ہتھیار نہ رکھنے والی ریاستوں کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہے جو جوہری پھیلاؤ اور جوہری تصادم کا خطرہ بڑھائے گا، اور علاقائی کشیدگی کو مزید ہوا دے گا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ جاپان خود’’جوہری دھماکے کا شکار‘‘ ملک ہے اور ’جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا‘‘ کے قیام کی وکالت کرتا رہا ہے۔ لیکن درحقیقت اس نے امریکہ پر اپنا جوہری انحصار بڑھانا جاری رکھا ہوا ہے۔ تاہم، کیا امریکہ واقعی قابل اعتماد ہے؟ تجزیہ کاروں کے مطابق امریکہ کے لیے، نام نہاد "توسیع شدہ ڈیٹرنس" کا مقصد اپنی عالمی فوجی بالادستی کو مضبوط کرنا اور دوسرے ممالک کے ساتھ محاذ آرائی میں اپنی بارگیننگ چپ کو بڑھانا ہے جس سے جاپان کے جنگ میں ملوث ہونے یا ایٹمی جنگ میں بھی ملوث ہونے کے خطرے میں اضافہ بڑھ رہا ہے ۔
ایک طرف جاپان-امریکی اتحاد جوہری پھیلاؤ کے خطرے کو بڑھا رہا ہے جب کہ دوسری طرف یہ اتحاد چین پر" جوہری ہتھیاروں کی توسیع" کے حوالے سے تنقید کر رہا ہے ۔ لیکن دنیا نے واضح دیکھا ہے کہ ایک طویل عرصے سے، چین جوہری ہتھیاروں کے استعمال میں پہل نہ کرنے کی پالیسی اور اپنے دفاع کی جوہری حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، اور کسی کے ساتھ ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل نہیں ہوا۔ دوسری طرف جاپان نے دوسری عالمی جنگ کے بعد کے "امن پسند آئین" کی پابندیوں کو بار بار توڑا ہے اور عسکریت پسندی کی غلطیوں کو دہراتے ہوئے اور امریکہ پر انحصار کرتے ہوئے فوجی ڈی ریگولیشن حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاریخی پسپائی کا یہ عمل نہ صرف انسانی امن کے مقصد سے غداری ہے بلکہ تاریخ کے اسباق کو فراموش کر دینے والا بھی ہے۔