مقامی وقت کے مطابق 7 اگست کو ورلڈ اینٹی ڈوپنگ ایجنسی(واڈا) جس کا صدر دفتر کینیڈا کے شہر مونٹریال میں ہے، نے ایک بیان جاری کیا جس میں انکشاف کیا گیا کہ امریکی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی نے کئی سالوں سے ڈوپنگ کھلاڑیوں کو حصہ لینے کی اجازت دی ہے۔اس دوران نہ تو اینٹی ڈوپنگ قوانین کی خلاف ورزی کا اعلان کیاگیا اور نہ ہی اس پر پابندی عائد کی گئی ہے جو عالمی اینٹی ڈوپنگ قوانین کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔
نو مرتبہ اولمپک گولڈ میڈل جیتنے والے امریکی کھلاڑی لیوس نے اعتراف کیا ہے کہ 1988 کے سیول اولمپکس سے قبل تین بار ٹیسٹ مثبت آنے کے باوجود انہیں شرکت کی اجازت دی گئی ۔ ایتھنز اولمپک گیمز میں 100 میٹر کے چیمپیئن گیٹلن کا دو مرتبہ ٹیسٹ مثبت آیا تھااور ان پر تاحیات پابندی عائد کی جانی چاہیئے تھِی تاہم امریکی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی نے انہیں بری کرنے کی کوشش کی اور بالآخر ان پر عائد پابندی کو کم کرکے صرف چار سال کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی کینیڈابراڈکاسٹنگ کارپوریشن نے اس سے قبل انکشاف کیا تھا کہ امریکی کھلاڑیوں کی ایک بڑی تعدادنے غیر قانونی منشیات کے قانونی استعمال کے لیے "طبی استثنیٰ" کے لیے درخواست دی ہے۔
اس کے ساتھ ہی امریکہ نے "دوہرا معیار"اپنایا ہے اور اکثر چینی تیراکوں پر دباؤ ڈالا ہے اور جھوٹی رپورٹس شائع کی ہیں۔ پیرس اولمپکس کے آغاز سے قبل، متعدد امریکی اداروں اور میڈیا نے چینی تیراکوں کے نام نہاد"ڈوپنگ تنازع" کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ پیرس اولمپکس کے دوران انہوں نےشاندار نتائج حاصل کرنے والے چینی تیراکوں پر پھر حملہ کیے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے 5 اگست کو خبردی تھی کہ اگرچہ چینی تیراکی ٹیم کے پیرس کے دورے پر بادل چھائے ہوئے تھے لیکن پھربھی شائقین نے انہیں احترام اور تالیاں بجا کر خوش آمدید کہا اور 12 تمغوں کے ساتھ چینی تیراکی ٹیم کی کامیابی کا جشن منایا۔