فلسطینی اسلامی مزاحمتی تحریک (حماس) نے گیارہ تاریخ کو ایک بیان جاری کیا جس میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی کے مذاکرات کے ثالثوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ سابقہ مذاکرات کے نتائج کی بنیاد پر عمل درآمد کا منصوبہ بنائیں اور اسرائیل کو اس پر عمل کرنے پر مجبور کریں، اور مذاکرت کے مزید دور یا نئی تجاویز کی تلاش نہ کریں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطین اسرائیل تنازعہ کے نئے دور کے شروع ہونے کے بعد سے حماس کو ہمیشہ امید رہی ہے کہ مصر اور قطر کی ثالثی کوششیں کامیاب ہوں گی، اسی لیے اس نے مذاکرات کے متعدد ادوار میں حصہ لیا، اور جولائی کے اوائل میں غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کی تجویز کا جواب دیا۔ تاہم اسرائیل نے بعد میں نئی شرائط تجویز کیں جو کہ پورے مذاکراتی عمل کے دوران کبھی تجویز نہیں کی گئی تھیں ، غزہ کی پٹی پر حملے جاری رکھے اور حماس کے پولیٹکل بیورو کے رہنما اسماعیل ہانیہ کو قتل کیا۔یہ سب اسرائیل کے جنگ جاری رکھنے کے ارادے اور جنگ بندی کے معاہدے تک نہ پہنچنے کی تصدیق کرتے ہیں۔یہاں تک کہ 8 تاریخ کو قطر، مصر اور امریکہ کے رہنماؤں کی جانب سے اسرائیل اور حماس سے 15 تاریخ کو مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی اپیل کے بعد بھی 10 تاریخ کو اسرائیلی فوج نے غزہ شہر کے ایک اسکول پر بمباری کی جس میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کے پیش نظر حماس متعلقہ فریقوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ امریکی صدر بائیڈن کی سابقہ تجاویز اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی بنیاد پر حراست میں لیے گئے افراد کے تبادلے اور جنگ بندی کے معاہدے کے لیے مذاکراتی منصوبے کی تجویز پیش کریں، بجائے اس کے کہ نئے مذاکرات دوبارہ شروع کیے جائیں۔