دسمبر 1937 میں ، جاپانی فوج نے چین کے شہر نانجنگ پر حملہ کیا اور نانجنگ میں قتل عام کیا ، جس میں 300،000 سے زیادہ چینی مارے گئے۔ اس سانحے کے وقت ، ایک جرمن باشندے جوہان رابے نے چینیوں کے تحفظ کے لئے سخت محنت کی اور بعد میں بین الاقوامی برادری کے سامنے قتل عام کی حقیقت کو ظاہر کرنے کے لئے "رابے ڈائری" لکھی۔
مسٹر جوہان رابے کے 73 سالہ پوتے اور جرمنی میں ہائیڈل برگ یونیورسٹی کے پروفیسر تھامس رابے طویل عرصے سے چین جرمنی طبی تعاون اور لوگوں کے درمیان تبادلوں کے لئے پرعزم رہے ہیں۔ تھامس · رابے کو 2015 میں "نانجنگ کی اعزازی شہریت سے بھی نوازا گیا تھا۔ ہائیڈل برگ میں اپنی رہائش گاہ کے ساتھ ہی ، تھامس رابے اور ان کی اہلیہ نے جوہان رابے ایکسچینج سینٹر قائم کیا ۔ اب تک، دنیا بھر میں 6 جوہان رابے ایکسچینج سینٹرز قائم کیے جا چکے ہیں جن میں سے دو بیجنگ اور نانجنگ میں واقع ہیں.
تھامس رابے ہر سال مختلف ایکسچینج سینٹرز میں خصوصی لیکچر ز دیتے ہیں، تاکہ جوہان رابے کے انسانی جذبے کو فروغ دیا جاسکے ۔ 2018 میں ، تھامس رابے کو چینی حکومت کی طرف سے دوستی ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
چین کے ساتھ اپنے طویل مدتی تبادلوں میں ، تھامس رابے نے سائنس اور ٹیکنالوجی ، معیشت اور ثقافت جیسے بہت سے شعبوں میں چین کی عظیم کامیابیوں کا مشاہدہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ چین کی ترقی کی رفتار حیرت انگیز ہے۔ وہ چین کے مستقبل پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں اور اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ چین اور جرمنی کے درمیان مختلف شعبوں میں گہرے تعاون اور مشترکہ پیش رفت کا سلسلہ جاری رہے گا۔