مقامی وقت کے مطابق 23 اکتوبر کی سہ پہر صدر شی جن پھنگ نے کازان میں برکس سربراہ اجلاس کے دوران ایرانی صدر مسعود پیشکیان سے ملاقات کی۔
چینی صدر نے کہا کہ ایران اہم علاقائی اور بین الاقوامی اثر و رسوخ کا حامل ملک ہے اور چین کا اچھا دوست اور شراکت دار بھی ہے۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں تیزی سے رونما ہونے والی بڑی تبدیلیوں کے پس منظر میں چین ایران تعلقات کی اسٹریٹجک اہمیت مزید نمایاں ہو گئی ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بین الاقوامی اور علاقائی صورتحال کیسے تبدیل ہوتی ہے، چین ایران کے ساتھ دوستانہ تعاون کو فروغ دے گا۔صدر شی نے کہا کہ چین قومی خودمختاری، سلامتی اور قومی وقار کے تحفظ، اپنی معاشی اور سماجی ترقی کو مسلسل آگے بڑھانے اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کو بہتر اور گہرا کرنے میں ایران کی حمایت کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ چین ایران کے ساتھ مختلف شعبوں میں تبادلوں اور تعاون کو مضبوط بنانے، دونوں ممالک کے درمیان جامع اسٹریٹجک شراکت داری کی مضبوط اور مستحکم ترقی کو فروغ دینے اور دونوں ممالک کے عوام کو بہتر فوائد پہنچانے کے لئے تیار ہے۔
صدر پیشکیان نے کہا کہ چین ایران کا سب سے اہم شراکت دار ہے اور ایران چین جامع اسٹریٹجک شراکت داری اور مختلف شعبوں میں تعاون نے ترقی کی اچھی رفتار کو برقرار رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران دونوں ممالک کے درمیان جامع تعاون کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کی امید رکھتا ہے جس سے نہ صرف ایران کی قومی ترقی میں مدد ملے گی بلکہ علاقائی امن و استحکام کو فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔ ایرانی صدر نے کہا کہ ایران چین کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کے بنیادی مفادات سے متعلق امور پر باہمی حمایت اور مشترکہ طور پر بالادستی اور غنڈہ گردی کی مخالفت کرنے کے لئے تیار ہے۔انہوں نے کہا کہ ایران برکس تعاون کے میکانزم میں ایران کی باضابطہ شمولیت کی حمایت کرنے پر چین کا شکر گزار ہے اور برکس اور دیگر کثیر الجہتی پلیٹ فارمز پر چین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہے۔
فریقین نے مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ شی جن پھنگ نے نشاندہی کی کہ چین کو مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش ہے۔ غزہ میں جلد جنگ بندی اور دشمنی کا خاتمہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کی کلید ہے۔ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ تمام متعلقہ فریقوں پر زور دے کہ وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر سنجیدگی سے عمل درآمد کریں اور خطے میں مزید عدم استحکام سے بچیں۔