امریکہ کو اپنے غرور اور تعصب سے نکلنا چاہیے

2024/10/29 10:59:10
شیئر:


دنیا کے تئیں آپ کا زیادہ تر تکبر تعصب سے پیدا ہوتا ہے" - ہاپر لی، (امریکی ناول "ٹو کل اے موکنگ برڈ")

 عالمی توجہ آنے والے امریکی صدارتی انتخابات 2024  پر مرکوز ہونا شروع ہوگئی ہے۔ لوگ عالمی سیاست و  معیشت پر اس کے اثرات کی پیش گوئی کر رہے ہیں ۔مستقبل کے چین-امریکہ تعلقات پر امریکی انتخابات کے ممکنہ اثرات لوگوں کے زیر غور  اہم پہلوؤں میں سے ایک ہے.

حالیہ برسوں میں چین اور امریکہ کے تعلقات انتہائی مشکل رہے ہیں اور کچھ میڈیا تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ امریکی انتخابات میں جیت کس کی ہو گی کیوںکہ  چین اور امریکہ کے درمیان ساختی تضادات موجود رہیں گے ۔ خاص طور پر امور  تائیوان، جنوبی بحیرہ چین کا  تنازعہ اور انسانی حقوق کے معاملات میں چین اور امریکہ کے درمیان اختلافات  اب بھی شدید ہیں۔

چین امریکہ تعلقات کے رجحان کا عالمی معاشی اور سیاسی منظر نامے پر گہرا اثر پڑتا ہے اور اگر چین امریکہ تعلقات کشیدہ یا محاذ آرائی پر مبنی رہے تو اس سے دنیا پر بہت بڑا منفی  اثر  ہوگا۔  اگر چین اور امریکہ کے تعلقات بہتری  اور تعاون کی جانب بڑھتے ہیں تو اس سے عالمی اقتصادی بحالی اور ترقی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی  جو بلاشبہ دنیا کے لئے ایک بہت بڑی خوش خبری ہوگی۔ مستقبل میں چین اور امریکہ کو عالمی چیلنجوں اور خطرات سے مشترکہ طور پر نمٹنے کے لئے مختلف شعبوں میں تبادلے اور تعاون کو مضبوط بنانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے بنیادی مفادات اور  خدشات سے متعلق معاملات پر تحمل اور  برداشت   کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ایسے سخت اقدامات سے گریز کرنا چاہئے جو  صورتحال کو قابو سے باہر کرنے کا سبب  بنیں ۔صرف اسی طرح چین اور امریکہ کے تعلقات زیادہ مستحکم اور پائیدار مستقبل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔

یہ یقینی طور پر ایک مثالی  منظر نامہ ہے جسے ہم دیکھنا چاہتے ہیں ، لیکن سچ پوچھیں تو ، چینی لوگ  اس  بارے میں پرامید نہیں ہیں۔ چینی جو ہمیشہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو بہتر بنانے کی مخلصانہ  کوشش  کرتے اور  اس کی امید رکھتے ہیں، مایوس، بے بس اور یہاں تک کہ امریکیوں کی  دشمنانہ،  مغرور اور متغیر فطرت سے  نالاں  ہیں جس کا مظاہرہ واشنگٹن نے اپنی چین پالیسی  میں مسلسل کیا ہے۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے  اس معاملے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'اگر امریکہ  ہمیشہ  کہے کچھ اور  کرے کچھ  تو کسی بڑے ملک کی ساکھ کہاں رہ جاتی ہے؟' اگر امریکہ "چین" کا لفظ سن کر پریشان اور بے چین ہوتا ہے تو ایک بڑی طاقت کی خود اعتمادی کہاں ہے؟ امریکہ اگر صرف اپنے آپ کو خوشحال رکھے اور دوسرے ممالک کو  ان کی جائز  ترقی کرنے کی اجازت نہ دے تو بین الاقوامی اصول کہاں  ہیں ؟ در اصل امریکہ کو  درپیش چیلنج، چین نہیں  بلکہ خود اپنا آپ ہے ۔ اگر امریکہ  چین کو  دباؤ میں لیتا رہے  گا  تو خود کو نقصان پہنچائے گا۔"

یقیناً، لوگوں کے کسی بھی طرز عمل کے پیچھے ادراک اور فلسفے کا ایک مجموعہ ہوتا ہے. دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت سے امریکی  دانشوروں  نے اپنے بین الاقوامی تعلقات کے نظریے میں "بالادستی کا استحکام " وضع کیا ہے، جو اس سوچ پر مبنی ہے کہ ایک واحد ملک عالمی  نظام میں غالب طاقت حاصل کرکے نظام کے استحکام کو یقینی بنا سکتا ہے اور یوں  اجتماعی کوششوں کا  مسئلہ حل ہوسکتا ہے جو بین الاقوامی  برادری اور سیاست کے لئے پریشانی ہوتی ہے. اس نظریے کی بنیاد پر  امریکہ نے اپنے لئے  " اچھی بالادستی" کے طور پر ایک خاص شناخت قائم کی ہے  اور  امریکہ نے اپنے اثر و رسوخ اور غلبہ کے تحت بین الاقوامی  ماڈل "پیکس امریکانا" (Pax Americana) کا نام دیا،اور یہ دعویٰ کیا کہ بالادستی اچھی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ بالادستی رکھنے والا ملک پبلک پراڈکٹ کی شکل میں اپنے وسائل دوسروں کو منتقل کر سکتا ہے۔وہ  نہ صرف یکطرفہ مفادات کی پیروی کر سکتا ہے، بلکہ اجتماعی مفادات کو فروغ دینے کی "مقدس ذمہ داری" بھی سنبھال سکتا  ہے۔

حقیقت کیا ہے؟  اس بارے میں بات کرنے کی ضرورت نہیں ۔ امریکہ نے بالادستی اور غنڈہ گردی کی اپنی تاریخ کی بنیاد پر جنگی معیشت کا نظریہ بھی قائم کر لیا ہے، یعنی جنگ ملک کے لیے بہترین اسٹریٹجک سرمایہ کاری ہے، اور یہاں تک کہ  طاقت کی وکالت کرنا امریکہ کی مرکزی دھارے کی روایت بن چکی ہے۔ اس طرح کی "اچھی  بالادستی" کے سامنے، چین اور بین الاقوامی برادری کیسے فکرمند  نہ ہو گی؟

" دنیا کے تئیں آپ کا زیادہ تر تکبر تعصب سے پیدا ہوتا ہے "۔ ہم اب بھی امید کرتے ہیں کہ صدارتی انتخابات کے بعد نئی امریکی انتظامیہ اپنے تشخص اور فلسفیانہ  نظریات کا  بغور جائزہ لے کر  بہتری کی عکاسی  کرے گی، اپنے تسلط پسندانہ ماڈل کو بند کرے گی اور حقیقی معنوں میں  دنیا کے لئے ایک نیک دل   اور شعور رکھنے والا ملک  تعمیر کرے گی ، جو اپنی حیثیت، اثر و رسوخ اور طاقت کو اپنے اور دوسروں کے لیے  اچھے کام کرنے کے لیے استعمال کرے ۔ جہاں تک چین کے ساتھ تعلقات کا تعلق ہے تو چین  کسی خوش فہمی  میں ہرگز مبتلا نہیں ہے لیکن وہ  امریکی فریق پر زور دیتا ہے کہ وہ تاریخی ترقی کے عمومی رجحان کی واضح تفہیم رکھے، چین کی ترقی کو معروضی اور منطقی انداز میں دیکھے، چین کے ساتھ فعال اور عملی تبادلہ اختیار کرے، اور چین-امریکہ تعلقات کو مستحکم، صحت مند اور پائیدار ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے چین کے ساتھ  مل کر کام کرے۔