بچوں کا عالمی دن ہر سال 20 نومبر کو منایا جاتا ہےجس کا مقصد بچوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ، فلاح و بہبود اور تعلیم کو فروغ دینا ہے ۔بچوں کےحقوق میں وقار، سلامتی، منصفانہ سلوک، ظلم سے آزادی اور مساوی مواقع شامل ہیں۔ 2024 میں بچوں کا عالمی دن "مستقبل کی آواز سننے" کی اپیل کرتا ہے۔ لیکن غزہ کی پٹی میں، جب ہم نے اپنے بچوں سے "مستقبل کی آواز سننے" کی کوشش کی تو ہمیں بچوں کا گریہ سنائی دیا: "غزہ میں،ہم بڑے نہیں ہو سکتے۔"
31 اکتوبر کو مقبوضہ فلسطینی علاقے کے بارے میں اقوام متحدہ کے آزاد بین الاقوامی تحقیقاتی کمیشن نے اعداد و شمار جاری کیے کہ فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے نئے دور کے آغاز کے بعد اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے میں کم از کم 13 ہزار فلسطینی بچے ہلاک ہو چکے ہیں۔
صاف پانی تک رسائی نہیں ہے، صحت عامہ کا نظام تباہی کے دہانے پر ہے، اور امراض کا خطرہ سنگین ہے. رہائشی عمارتوں، اسپتالوں، اسکولوں اور ویکسی نیشن کے مقامات جیسے شہری مراکز، جنہیں عام شہریوں کے لیے پناہ گاہ سمجھا جاتا ہے، کو بھی اندھا دھند بمباری کا نشانہ بنایا گیا ہے۔معلوم نہیں کہ بم کب گرے گا،اور یہ کس پر گرے گا۔ غزہ کی پٹی میں بچے اسی خوف میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔جب حفاظت کی بنیادی ضمانت ہی نہیں دی جا سکتی تو، دوسرے حقوق کی بات تو بہت دور کی بات ہے.
بین الاقوامی برادری کی طرف سے غزہ کی پٹی تک انسانی ہمدردی کی رسائی کو آسان بنانے کے بارہا مطالبے کے باوجود، رسائی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ 15 نومبر کو ، اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے انسانی امور کے ترجمان جینز لیرکے نے کہا کہ غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کی کارروائیاں نچلی ترین سطح پر ہیں۔ انسانی ہمدردی کے کارکن کچھ کرنا چاہتے تھے، لیکن "ہم لاچار ہو چکے ہیں"۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ انسانی امداد تک رسائی میں ناکامی کی بنیادی وجہ اسرائیلی پابندیاں اور مداخلت ہے۔
یہاں تک کہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اسرائیل حماس کے عسکریت پسندوں کو "بھوکا مارنے" کے لئے شمالی غزہ کو انسانی امداد کی فراہمی بند کرنے پر غور کر رہا ہے۔ شمالی غزہ میں ہزاروں فلسطینی جو اپنے گھروں کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں یا چھوڑنے سے قاصر ہیں، ان کے ساتھ "مسلح افراد" جیسا سلوک کیا جائے گا اور انہیں ایک مایوس کن صورت حال میں چھوڑ دیا جائے گا۔
درحقیقت غزہ پر اسرائیل کے سخت کنٹرول کی ایک طویل تاریخ ہے۔ سنہ 2007 کے بعد سے غزہ کی پٹی میں اشیاء اور لوگوں کی نقل و حرکت کو کم سے کم سطح تک محدود کر دیا گیا ہے اور یہاں موجود فلسطینیوں کو آزادانہ نقل و حرکت اور کام کرنے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ یو این سی ٹی اے ڈی کی رپورٹ میں نشاندہی کی گئی ہے کہ تنازع کے موجودہ دور سے پہلے ہی غزہ کا سماجی و اقتصادی بحران بہت سنگین تھا۔ بجلی، ایندھن اور یہاں تک کہ خوراک اور پانی کی قلت تھی۔ رپورٹ میں تخمینہ لگایا گیا ہے کہ اسرائیل کے سخت کنٹرول کے باعث غزہ کی پٹی کو ممکنہ35.8 بلین ڈالر کا معاشی نقصان اٹھانا پڑا ہے ، جس میں جنگ سے سامنے آنے والا نقصان شامل نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کی رپورٹس میں بھی بارہا اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ فلسطینی ریاست کے بچے تنازع کے نئے دور سے پہلے ہی طویل عرصے سے تشدد اور انتہائی غربت کے سائے میں زندگی بسر کر رہے تھے۔
فلسطینی بچوں کے ان سنگین حالات کے پیش نظر لوگ بار بار پوچھتے ہیں کہ "کیا اس کا کوئی حل نہیں ہے؟"
حل مشکل ہے. دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد سے اقوام متحدہ کی مرکزیت پر مبنی بین الاقوامی نظام، بین الاقوامی قانون پر مبنی عالمی نظم و نسق، اور اقوام متحدہ کے منشور کے مقاصد اور اصولوں پر مبنی بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصول، جن کی بیشتر ممالک نے مشترکہ طور پر حمایت کی ہے، کو یہاں سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔ مشرق قریب میں فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کی ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی (یو این آر ڈبلیو اے) کے ساتھ تعاون کے معاہدے کی منسوخی سے لے کر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو ناپسندیدہ افراد کی فہرست میں شامل کرنے تک،پھر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کرنے اور یہاں تک کہ اقوام متحدہ کے منشور کی پامالی تک، اسرائیل نے موجودہ بین الاقوامی نظام اور نظم و نسق کو کھلے عام نظر انداز کیا ہے۔ اس کے پیچھےایک طاقتور اتحادی کی طویل مدتی رضامندی اور حمایت ہے۔
تازہ ترین مثال یہ ہے کہ امریکہ نے اکتوبر میں اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ غزہ کی پٹی میں سنگین انسانی بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرے ،ورنہ وہ اسرائیل کے لیے فوجی امداد محدود کر سکتا ہے۔ ایک ماہ بعد امریکہ نے کہا کہ غزہ میں انسانی بحران کی صورتحال کو بہتر بنانے میں پیش رفت ہوئی ہے اور اسرائیل کے لیے امریکی فوجی امداد میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔
لیکن حقائق کیا ہیں؟ آکسفیم اور سیو دی چلڈرن سمیت آٹھ بین الاقوامی امدادی تنظیموں نے مشترکہ طور پر ایک رپورٹ جاری کی، جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل امریکہ کی جانب سے تجویز کردہ 19 اصلاحات میں سے ایک بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صورتحال ایک ماہ پہلے کے مقابلے میں مزید بدتر ہے۔ لوگ شک کرنے میں حق بجانب ہیں کہ یہ نام نہاد مطالبہ بین الاقوامی رائے عامہ کے دباؤ میں محض ایک دکھاوا ہے اور اسرائیل کے لیے امریکی حمایت اور ملی بھگت کبھی ختم نہیں ہوئی ہے اور نہ ہی تھمے گی۔تاہم یہ بات تسلی بخش ہے کہ انصاف کی حمایت میں بین الاقوامی برادری کی کوششیں بھی کبھی ختم نہیں ہوئی ہیں اور نہ ہی انصاف کے مطالبے رکے ہیں۔ تشدد اور بالادستی کچھ عرصے کے لئے زور پکڑ سکتی ہے، لیکن عدل و انصاف ایک صحیح راستہ ہے. غزہ کے بحران میں پھنسے ہوئے بچے، نیز تشدد اور بالادستی کے شکار لوگ، لازماً بڑے ہوں گے اور مزیدمضبوط ہوں گے۔