پچھلے دنوں ، یہ خبر ملی ہے کہ امریکی حکومت چینی کمیونسٹ پارٹی کے ارکان اور ان کے اہل خانہ پرامریکی سفر اختیار کرنے پر مکمل پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے ، اس بارے میں امریکہ کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر وسیع پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔تجزیہ کاروں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ امریکی سیاست دانوں کی یہ اشتعال انگیزی چینی اور امریکی عوام کی مرضی اور عالمی ترقی کے رجحان کے خلاف ہے ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ میں میکارتھیزم کی بحالی کے آثار زیادہ واضح ہوتے جارہے ہیں ، اور دنیا کو اس حوالے سے خبر دار رہنا چاہیے۔ یہ صورت حال آج کے امریکہ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔
امریکی نیویارک ٹائمز کی حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی حکومت چینی کمیونسٹ پارٹی کے تمام اراکین نیز ان کے اہل خانہ پر سفری پابندی عائد کرنے پر غور کر رہی ہے۔ابھی اس رپورٹ کی حقیقت کے حوالے سے زیادہ پتہ نہیں چل سکا ہے ، تاہم امریکی میڈیا پر اس قسم کی رپورٹ جاری ہونا بھی ناقابل یقین ہے۔
حالیہ دنوں میں ، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے بار بار جنوبی بحیرہ چین میں کشیدگی کو ہوا دی ، انہوں نے جنوبی بحیرہ چین پر چین کے اقتدار اعلیٰ اور سمندری حدود کے حقوق سے متصادم بیانات دئیے۔ اس کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک اور چین کے درمیان تعلقات کو کشیدہ کرنے کی کوشش بھی کی۔
حال ہی میں ، امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو ، امریکی قومی سلامتی کے معاون رابرٹ اوبرائن اور بعض چین مخالف امریکی سیاستدانوں نے چینی حکمران جماعت کو جان بوجھ کر بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ چینی عوام کے تعلقات کوسبوتاژ کرنے کی کوشش کی ہے ۔تاہم جولائی کے اوائل میں ، ہارورڈ یونیورسٹی کے ذریعہ شائع ہونے والی ایک 14 سالہ فالو اپ تحقیقی رپورٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چینی عوام کی اپنی مرکزی حکومت سے اطمینان کی شرح گزشتہ برسوں میں 90 فیصد سے زیادہ رہی ہے ، جس سے چینی قوم کے اپنی حکمران جماعت پر بھر پور اعتماد اور حمایت کا اظہار ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ اس طرح کے بے بنیاد بیانات اور الزامات سے چین کی حکمران جماعت کو بدنام کرنے والے امریکی سیاستدانوں کی خود اپنی توہین ہوئی ہے۔
سولہ جولائی تک کل کیسز کی تعداد پینتیس لاکھ چالیس ہزار سے زائد ہو چکی ہیں۔بیشتر امریکی طبی ماہرین کی اپیل کے باوجود امریکی حکومت نے پندرہ تاریخ سے پورے ملک کے اسپتالوں سے سی ڈی سی کو کووڈ-۱۹ سے متعلق معلومات فراہم نہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔یہ وبا پھوٹنے کے بعد امریکی حکومت کے حیرت انگیز اقدامات کا ایک نمونہ ہے ۔
مشکلات کے باوجود سولہ جولائی کو جاری تازہ اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ چینی معیشت بتدریج بحال ہو رہی ہے۔
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے 14 تاریخ کو اعلان کیا کہ برطانیہ رواں سال کے آخر تک چینی مواصلاتی کمپنی ہواوے سے فائیوجی مصنوعات کی خریداری بند کردے گا ، اور 2027 تک ہواوے کی تمام فائیو جی تنصیبات کا استعمال ترک کردے گا۔
حالیہ دنوں عالمی ادارہ صحت کے دو ماہرین چین پہنچے ہیں اور وہ نوول کورونا وائرس کے ماخذ کا پتہ چلانے کے لئے سائنسی تعاون پر چین کے ساتھ ابتدائی مشاورت کریں گے۔
کووڈ- ۱۹ اپنی طرز کی وہ پہلی آفت ہے جس کا تجربہ انسانیت نے اس سے قبل کبھی نہیں کیا تھا۔
نو جولائی کو ، چین-امریکہ تھنک ٹینک میڈیا ویڈیو فورم منعقد ہوا۔ چینی اسٹیٹ کونسلر اور وزیر خارجہ وانگ ای، امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہینری کسنجر اور آسٹریلیا کے سابق وزیر اعظم کیون مائیکل روڈ سمیت متعدد عالمی شخصیات نے اس فورم میں شرکت کی اور متعلقہ موضوعات پر تقاریر کیں۔ وانگ ای نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے چین- امریکہ تعلقات کی بحالی سے متعلق تین تجاویز پیش کیں ،جن میں مذاکرات کے تمام راستوں کو کھلا اور متحرک رکھنا ، تعاون ، بات چیت ، اور کنٹرول کی تین فہرستیں مرتب کرنا اور انسداد وبا کے سلسلے میں تعاون کرنا شامل ہیں۔
نو جولائی کو ، ہیومن رائٹس ریسرچ سوسائٹی آف چائنا نے مہاجرین کے ساتھ شدید امتیازی اور ظالمانہ سلوک سے امریکی ہیومن رائٹس کی منافقت کے بے نقاب ہونے کے موضوع پر ایک مضمون شائع کیاجس میں بہت سے حقائق اور اعداد و شمار کے ذریعے انسانی حقوق کے نام نہاد محافظ امریکہ کی جانب سے ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر روشنی ڈالی گئی ۔
چھ جولائی کو امریکہ نے باضابطہ طور پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس کو مطلع کیا ہے کہ وہ اگلے سال جولائی میں عالمی ادارہ صحت سے علیحدہ ہوجائے گا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک کا کہنا ہے کہ ڈبلیو ایچ او میں امریکہ کی شرکت کے وقت طے شدہ شرائط کے مطابق امریکہ ایک سال قبل درخواست پیش کرکے اور اپنی مالی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او سے باضابطہ طورپر علیحدہ ہوسکتا ہے۔