ہوا وے کمپنی پر پابندی لگانے کے بعد امریکہ نے ڈی جے آئی سمیت دیگر چینی کمپنیوں کو بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکی دی ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ باوجود یہ کہ سائنس ، فوج اور معیشت کے شعبے میں امریکہ کی صلاحیتیں بہترین ہیں تاہم کچھ سیاستدان تنگ دل ہیں اور دوسروں کو ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے اور کچھ شعبوں میں دوسروں کی برتری بھی نہیں چاہتے ہیں۔
امریکی ملبوسات گروپ "گیپ "کے قیام کو پچاس سال ہو چکے ہیں ۔رواں سال گیپ نے ایک طرف امریکہ میں کئی سو دکانوں کو بند کرنے اور دوسری طرف چین میں مزید چالیس دکانیں کھولنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ گیپ کے علاوہ چین میں سرمایہ کاری کو وسعت دینے والے غیرملکی کاروباری اداروں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
چین کی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرنے اور اپنی کمزور ہوتی بالادستی کے تحفظ کے لیے امریکہ نے چین کو بدنام کرنے کی کوششیں کیں۔
امریکہ کی وزارت تجارت نے سولہ مئی کو ہوا وے کمپنی اور اس سے منسلک ستر صنعتی اداروں کو برآمدی پابندی کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے ہواوے کی امریکی صنعتی اداروں سے ٹیکنالوجی اور فٹنگز کی خریداری پر پابندی لگا دی ۔
امریکہ کی ییل یونیورسٹی کے تحت جیکسن انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی امور کے سینیئر محقق سٹیفن روچ نے حال ہی میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں کہا کہ اس وقت امریکہ کے سیاسی حلقوں نے چین کے بارے میں غلط بیانیہ قبول کرلیاہے کہ جو چیز بھی امریکہ کے لیے پریشان کن ہے وہ چین کی وجہ سے ہے ۔
چین نے اقوام متحدہ کے دوسرے بڑے رکنیت فیس دینے والے ملک کی حیثیت سے حال ہی میں اپنی فیس کو پورا اداکیاہے ۔
امریکی صدر کے سابق مشیر برائے حکمت عملی سٹیو بینون کا حال ہی میں چین کے خلاف ایک مضمون شائع ہواہے جس میں کہا گیا ہے کہ " چین امریکہ کا سب سے بڑا دشمن بن گیا ہے " ۔انہوں نے امریکہ سے چین کے ساتھ موجودہ " معاشی جنگ " میں پیچھے نہ ہٹنے کا مطالبہ کیا ہے۔
حال ہی میں امریکہ کے متعدد سیاستدانوں نے کہا ہے کہ امریکہ ایک منی باکس ہے اور چین سمیت دنیا کے دوسرے تمام ممالک اس باکس سے منی چوری کر تے ہیں ۔ یہ بیان اقتصادی علوم کی کمی اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں اور اپنا تما شہ لگانے کے مترادف ہے ۔
ایشیائی تہذیب و تمدن کی مذاکراتی کانفرنس پندرہ تاریخ کو بیجنگ میں منعقد ہوئی ۔ چین کے صدر مملکت شی جن پھنگ نے کانفرنس سے اپنے خطاب میں کہا کہ انسانوں کے رنگ وزبان ٘مختلف ہوسکتے ہیں لیکن تہذیبوں میں
امریکہ کے ریاستی محکمہ برائے پالیسی و منصوبہ بندی کی سربراہ کرون سکینر نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکہ اور چین کے درمیان تصادم ' مختلف تہذیبوں اور نظریوں کے درمیان جنگ " ہے ۔ دانشوروں کی بڑی تعداد نے اس بیان کے حوالے سےاظہار خیال کرتے اسےتماشا لگانے اور تہذیب و تمدن کو بدنام کرنے کے مترادف قراردیا ہے ۔
حالیہ دنوں چین امریکہ اقتصادی و تجارتی بات چیت کا گیارہواں دور واشنگٹن میں اختتام پذیر ہوا۔ اس موقع پر دونوں فریقوں کی جانب سے بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق کیاگیا۔ تاہم دوسری جانب دو کھرب امریکی ڈالرز کی چینی مصنوعات پر پچیس فیصد اضافی ٹیرف عائد کرنے کے اعلان کے بعد امریکی حکومت نے کہا ہے کہ مزید تین کھرب پچیس ارب امریکی ڈالرز کی چینی مصنوعات پر بھی پچیس فیصد اضافی ٹیرف لگانے پر غور کیا جا رہا ہے۔